April 26, 2024

قرآن کریم > الكهف >surah 18 ayat 103

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا 

کہہ دو کہ : ’’ کیا ہم تمہیں بتائیں کہ کون لوگ ہیں جو اَپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام ہیں؟

 آیت ۱۰۳:   قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا:   ’آپ کہیے: کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟»

            یہ ہے وہ مضمون جسے ابتدا میں اس سورت کا عمود قرار دیا گیا تھا، یعنی دنیا اور اس کی زیب و زینت! اس مضمون کے سائبان کا ایک کھونٹا سورت کے آغاز میں نصب ہے جبکہ دوسرا کھونٹا یہاں ان آیات کی صورت میں۔ ابتدائی آیات میں واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ دنیا کی زیب و زینت اور رونقوں پر مشتمل یہ خوبصورت محفل سجائی ہی انسانوں کی آزمائش کے لیے گئی ہے۔ اس کے ذریعے سے انسانوں کے رویوں کی پرکھ پڑتال کرنا اور ان کی جد وجہد کی غرض وغایت کا تعین کرنا مقصود ہے:    اِنَّاجَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّـہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔ اب یہاں آیت زیر نظر میں اُن لوگوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے جو اپنے اعمال، اپنی محنت و مشقت، بھاگ دوڑ اور سعی وجہد میں سب سے زیادہ گھاٹا کھانے والے ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس آزمائش میں ناکام ہو کر دنیا کی زیب وزینت ہی میں کھو گئے ہیں۔

             جہاں تک محنت اور مشقت کا تعلق ہے وہ تو ہر شخص کرتا ہے۔ جیسے حضور نے فرمایا: «کُلُّ النَّاسِ یَغْدُوْ فَبَائِعٌ نَفْسَہُ، فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا»   «ہر انسان جب صبح کرتا ہے تو خود کو بیچنا شروع کرتا ہے، پھر یا تو وہ اسے آزاد کرا لیتا ہے یا (گناہوں سے) ہلاک کر دیتا ہے»۔ چنانچہ ہر کوئی اپنے آپ کو بیچتا ہے۔ کوئی اپنی طاقت اور قوت بیچتا ہے، کوئی اپنی ذہانت اور صلاحیت بیچتا ہے اور کوئی اپنا وقت اور ہنر بیچتا ہے۔ گویا یہ دنیا محنت، عمل اور کوشش کی دوڑ کا میدان ہے اور ہر انسان اپنے مفاد کے لیے بقدرِ ہمت اس دوڑ میں شامل ہے۔ مگر بدقسمتی سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی پوری کوشش اور محنت کے باوجود گھاٹے میں رہتے ہیں۔ ان کے لیے خود کو بیچنے کے اس عمل میں کچھ بھی نفع نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہے، خسارا ہی خسارا ہے۔ تو اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے یہ کون لوگ ہیں؟ 

UP
X
<>