April 26, 2024

قرآن کریم > الكهف >surah 18 ayat 22

سَيَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ وَيَقُوْلُوْنَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًۢا بِالْغَيْبِ ۚ وَيَقُوْلُوْنَ سَبْعَةٌ وَّثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۭ قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَّا يَعْلَمُهُمْ اِلَّا قَلِيْلٌ ڢ فَلَا تُمَارِ فِيْهِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَاهِرًا ۠ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِيْهِمْ مِّنْهُمْ اَحَدًا

 کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین آدمی تھے، اور چوتھا اُن کا کتا تھا، اور کچھ کہیں گے کہ وہ پانچ تھے، اور چھٹا اُن کا کتا تھا۔ یہ سب اٹکل کے تیر چلانے کی باتیں ہیں ۔ اور کچھ کہیں گے کہ وہ سات تھے، اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ کہہ دو کہ : ’’ میرا رَبّ ہی ان کی صحیح تعداد کو جانتا ہے۔ تھوڑے سے لوگوں کے سوا کسی کو ان کا پورا علم نہیں ۔‘‘ لہٰذا ان کے بارے میں سر سری گفتگو سے آگے بڑھ کر کوئی بحث نہ کرو، اور نہ ان کے بارے میں کسی سے پوچھ گچھ کرو

 آیت ۲۲:   سَیَـقُوْلُوْنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمْ کَلْبُہُمْ وَیَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ کَلْبُہُمْ رَجْمًا بِالْغَیْبِ وَیَقُوْلُْوْنَ سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ: «اب یہ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے، اُن کا چوتھا اُن کا کتا تھا، اور کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ پانچ تھے، اُن کا چھٹا ان کا کتا تھا، یہ سب تیر تکے چلا رہے ہیں اندھیرے میں، اور کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ سات تھے اور ان کا آٹھواں اُن کا کتا تھا۔»

               قُلْ رَّبِّیْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمْ مَّا یَعْلَمُہُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ: «آپ کہیے: میرا رب بہتر جانتا ہے ان کی تعداد کو، نہیں جانتے ان (کے معاملے) کو مگر بہت تھوڑے لوگ۔»

            قرآن مجید میں ان کی تعداد کے بارے میں صراحت تو نہیں کی گئی مگر اکثر مفسرین کے مطابق بین السطور میں آخری رائے کے درست ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ اس میں ایک نکتہ تو یہ ہے کہ پہلے فقرے:    ثَلٰـثَۃٌ رَّابِعُہُمْ کَلْبُہُمْ. اور دوسرے فقرے:    خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ کَلْبُہُمْ.  کے درمیان میں «و» نہیں ہے، جبکہ تیسرے فقرے میں:   سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ.  کے درمیان میں «و» موجود ہے۔ چنانچہ پہلے دونوں کلمات کے مقابلے میں تیسرے کلمہ کے بیان میں «و» کی وجہ سے زیادہ زور ہے۔

            اس ضمن میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جب وہ لوگ جاگے تھے تو اُن میں سے ایک نے سوال کیا تھا:    کَمْ لَبِثْتُمْ: کہ تم یہاں کتنی دیر سوئے رہے ہو؟ اس سوال کا جواب قرآن حکیم میں بایں الفاظ نقل ہوا ہے:    قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ: انہوں نے کہا کہ ہم ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم عرصہ تک سوئے رہے ہیں۔ یہاں پر قَالُوْا چونکہ جمع کا صیغہ ہے اس لیے یہ جواب دینے والے کم از کم تین لوگ تھے، جبکہ اس سوال کے جواب میں ان کے جن ساتھیوں نے دوسری رائے دی تھی وہ بھی کم از کم تین ہی تھے، کیونکہ ان کے لیے بھی قَالُوْا جمع کا صیغہ ہی استعمال ہوا ہے:    قَالُوْا رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ۔ اس طرح ان کی تعداد سات ہی درست معلوم ہوتی ہے۔ یعنی ایک پوچھنے والا، تین لوگ ایک رائے دینے والے اور ان کے جواب میں تین لوگ دوسری رائے کا اظہار کرنے والے۔

            اس کے علاوہ قدیم رومن لٹریچر میں بھی جہاں ان کا ذکر ملتا ہے وہاں ان کی تعداد سات ہی بتائی گئی ہے۔ قبل ازیں گبن کی کتاب کا حوالہ بھی دیا جا چکا ہے جس میں Seven Sleepers کا ذکر ہے۔ لیکن یہاں جس بات کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس معاملے میں بحث کرنے اور جھگڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے:

               فَلَا تُمَارِ فِیْہِمْ اِلَّا مِرَآءً ظَاہِرًا وَّلَا تَسْتَفْتِ فِیْہِمْ مِّنْہُمْ اَحَدًا: «تو (اے نبی!) آپ ان کے بارے میں جھگڑا مت کریں سوائے سرسری بحث کے، اور نہ ہی آپ پوچھئے ان کے بارے میں ان میں سے کسی سے۔»

            یعنی جو بات دعوتِ دین اور اقامت دین کے حوالے سے اہم نہ ہو اس میں بے مقصد چھان بین کرنا اور بحث و نزاع میں پڑنا، گویا وقت ضائع کرنے اور اپنی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ 

UP
X
<>