April 27, 2024

قرآن کریم > الكهف >surah 18 ayat 32

وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلاً رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا 

اور (اے پیغمبر !) ان لوگوں کے سامنے اُن دو آدمیوں کی مثال پیش کرو جن میں سے ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ دے رکھے تھے، اور ان کو کھجور کے درختوں سے گھیرا ہوا تھا، اور ان دونوں باغوں کے درمیان کھیتی لگائی ہوئی تھی

            اس رکوع میں دو اشخاص کے باہمی مکالمے کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت اور بہت سی دوسری دُنیوی نعمتوں سے نواز رکھا تھا۔ وہ شخص اپنی خوشحالی میں اس قدر مگن ہوا کہ اس کی نگاہ اللہ سے ہٹ کر مادی وسائل پر ہی جم کر رہ گئی اور انہی اسباب و وسائل کو وہ اپنے توکل اور بھروسے کا مرکز بنا بیٹھا۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا شخص تھا جو دُنیوی لحاظ سے خوشحال تو نہیں تھا مگر اُسے اللہ کی معرفت حاصل تھی۔ اُس نے اُس دولت مند شخص کو نصیحت کی کہ اللہ نے تمہیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے مگر تم اُسے بالکل ہی بھولے ہوئے ہو۔ تمہیں چاہیے کہ تم اللہ کا شکر ادا کرو۔ دولت مند شخص نے گھمنڈ میں آ کر اس کی نصیحت کا بہت تلخ جواب دیا اور کہا کہ مجھے تو یہ ساری نعمتیں اس لیے ملی ہیں کہ میں اللہ کا چہیتا ہوں جبکہ میرے مقابلے میں تمہاری کوئی حیثیت نہیں۔ اللہ کے اس بندے نے اسے پھر سمجھایا کہ دیکھو اپنے دُنیوی مال و اسباب پر مت اِتراؤ، کیونکہ اللہ اگر چاہے تو تمہارے یہ سارے ٹھاٹھ باٹھ پل بھر میں ختم کر کے رکھ دے۔ وہ چاہے تو تمہاری ساری دولت اور مال و اسباب کو ضائع کر سکتا ہے۔ اس نے جواباً کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے اپنے مال واسباب کی حفاظت کا خوب بندوبست کر رکھا ہے۔ الغرض ان تمام نصیحتوں کا اُس شخص پر کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ دُنیوی اَسباب کے نشے نے اس کو اس قدر اندھا کر رکھا تھا کہ اسے حقیقی مسبب الاسباب کی قدرت کا کچھ اندازہ ہی نہ رہا۔ بالآخر اُس کے اس رویے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا سب کچھ برباد کر کے رکھ دیا اور وہ اپنے رویے پر کف افسوس ملتا رہ گیا۔ اپنی بربادی کے بعد جب اس شخص کی آنکھیں کھلیں تو تب بہت دیر ہو چکی تھی۔

            یہاں اس دولت مند شخص کا وہ فقرہ خاص طور پر قابل غور ہے جو اپنی بربادی کے بعد پچھتاتے ہوئے اس کی زبان سے نکلا تھا کہ «کاش میں نے اپنے رب کے ساتھ شرک نہ کیا ہوتا!» دیکھا جائے تو اس سارے واقعے میں کسی ظاہری شرک کا ارتکاب نظر نہیں آتا۔ کسی دیوی یا دیوتا کی پوجا پاٹ کا بھی کوئی حوالہ یہاں نہیں آیا، اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کا بھی ذکر نہیں ہوا، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا اقدام تھا جس پر وہ شخص پچھتایا کہ کاش میں نے اپنے رب سے شرک نہ کیا ہوتا! اس پہلو سے اگر اس سارے واقعے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں جس شرک کا ذکر ہوا ہے وہ «مادہ پرستی» کا شرک ہے۔ اس شخص نے اپنے مادی اسباب ووسائل کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ جو بھروسا اور توکل اُسے حقیقی مسبب الاسباب پر کرنا چاہیے تھا وہ بھروسا اور توکل اُس نے اپنے مادی وسائل پر کر لیا تھا اور اس طرح ان مادی وسائل کو معبود کا درجہ دے دیا تھا۔ یہی رویہ اور یہی سوچ مادہ پرستی ہے اور یہی موجودہ دور کا سب سے بڑا شرک ہے۔

            موجودہ دور ستارہ پرستی اور بت پرستی کا دور نہیں۔ آج کا انسان ستاروں کی اصل حقیقت جان لینے اور چاند پر قدم رکھ لینے کے بعد ان کی پوجا کیونکر کرے گا؟ چنانچہ آج کے دور میں اللہ کو چھوڑ کر انسان نے جو معبود بنائے ہیں ان میں مادہ پرستی اور وطن پرستی سب سے اہم ہیں۔ آج دولت کو معبود کا درجہ دے دیا گیا ہے اور مادی وسائل اور ذرائع کو مسبب الاسباب سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ موجودہ دور کا بہت خطرناک شرک ہے اور اس سے محفوظ رہنے کے لیے اسے بہت باریک بینی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

 آیت ۳۲:   وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ:  « (اے نبی!) آپ بیان کیجیے ان کے لیے دو اَشخاص کی مثال»

               جَعَلْنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّحَفَفْنٰہُمَا بِنَخْلٍ:  «اُن میں سے ایک کو ہم نے دیے تھے دو باغ انگوروں کے اور اُن دونوں کا گھیر دیا تھا ہم نے کھجوروں کے درختوں کے ساتھ»

            انگوروں کی بیلو ں کے گردا گرد کھجوروں کے درختوں کی باڑ تھی تا کہ نازک بیلیں آندھی، طوفان وغیرہ سے محفوظ رہیں۔

               وَّجَعَلْنَا بَیْنَہُمَا زَرْعًا: «اور ہم نے ان دونوں (باغوں) کے درمیان کھیتی کا انتظام بھی کر رکھا تھا۔»

            بنیادی طور پر وہ انگوروں کے باغات تھے۔ ان کے اطراف میں کھجوروں کے درخت تھے، جن کی دوہری افادیت تھی۔ ان درختوں سے کھجوریں بھی حاصل ہوتی تھیں اور وہ حفاظتی باڑ کا کام بھی دیتے تھے۔ درمیان میں کچھ زمین کاشت کاری کے لیے بھی تھی، جس سے اناج وغیرہ حاصل ہوتا تھا۔ گویا ہر لحاظ سے مثالی باغات تھے۔ 

UP
X
<>