May 3, 2024

قرآن کریم > الكهف >surah 18 ayat 82

وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا 

رہی یہ دیوار، تو وہ اس شہر میں رہنے والے دو یتیم لڑکوں کی تھی، اور اُس کے نیچے ان کا ایک خزانہ گڑا ہوا تھا، اور ان دونوں کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ اس لئے آپ کے پروردگار نے یہ چاہا کہ یہ دونوں لڑکے اپنی جوانی کی عمر کو پہنچیں ، اور اپنا خزانہ نکال لیں ۔ یہ سب کچھ آپ کے رَبّ کی رحمت کی بنا پر ہوا ہے، اور میں نے کوئی کام اپنی رائے سے نہیں کیا۔ یہ تھا مقصد اُن باتوں کا جن پر آپ سے صبر نہیں ہو سکا۔‘‘

 آیت ۸۲:   وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہُ کَنْزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوْہُمَا صَالِحًا:   «اور رہی وہ دیوار! تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی، اور اس کے نیچے خزانہ تھا ان دونوں کے لیے، اور ان کا باپ نیک آدمی تھا۔»

            باپ نے جب دیکھا ہو گا کہ میرا آخری وقت قریب آ لگا ہے اور میرے بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں تو اس نے اپنی ساری پونجی اکٹھی کر کے دیوار کی بنیاد میں دفن کر دی ہو گی، اس امید پر کہ جب وہ بڑے ہوں گے تو نکال لیں گے۔ لیکن اگر وہ دیوار وقت سے پہلے ہی گر جاتی تو اس بستی کے نا ہنجار لوگ جو کسی مسافر کو کھانا کھلانے کے بھی روادار نہیں، ان یتیموں کا دفینہ لوٹ کر لے جاتے۔

               فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَآ اَشُدَّہُمَا وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَہُمَا:   «لہٰذا آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور نکال لیں اپنا خزانہ»

            باپ چونکہ نیک آدمی تھا اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیوار کی مرمت کا اہتمام کر کے اس کے کم سن یتیم بچوں کی بھلائی کا سامان کیا گیا۔

               رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ وَمَا فَعَلْتُہُ عَنْ اَمْرِیْ:   «(یہ سب امور) آپ کے رب کی رحمت سے (طے ہوئے) تھے، اور میں نے اپنی رائے سے انہیں سر انجام نہیں دیا۔»

            یعنی یہ تمام امور اللہ کی رحمت کا مظہر تھے۔ یہ اللہ ہی کے فیصلے تھے اور اسی کے حکم سے ان کی تنفیذ و تعمیل کی گئی۔ میں نے اپنی مرضی سے ان میں سے کچھ بھی نہیں کیا۔ ان امور کے سلسلے میں اللہ کے احکام کی تنفیذ کرنے والے اللہ کے وہ بندے حضرت خضر تھے، کوئی اور ولی اللہ تھے یا کوئی فرشتہ تھے، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اس سارے واقعہ میں اصل بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ایسے تمام بندے کارکنانِ قضا وقدرکی فوج کے سپاہی ہیں اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے جن احکام کی تنفیذ کر رہے ہیں ان کا تعلق شریعت سے نہیں بلکہ تکوینی امور سے ہے۔ دنیا میں جو واقعات و حادثات رونما ہوتے ہیں ہم صرف ان کے ظاہری پہلو کو دیکھ کر ہی ان پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں یا دل گرفتہ ہوتے ہیں۔ بہر حال ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ ہوتا ہے اس میں خیر اور بھلائی ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے تمام معاملات میں «تفویض الامر» کا رویہ اپناتے ہوئے راضی برضائے رب رہنا چاہیے کہ: ع

«ہرچہ ساقئ ما ریخت عین الطاف است!»

               ذٰلِکَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا:   «یہ ہے اصل حقیقت ان باتوں کی جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔»

UP
X
<>