May 4, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 286

لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

اﷲ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا ۔ اس کو فائدہ بھی اسی کام سے ہوگا جو وہ اپنے ارادے سے کرے، اور نقصان بھی اسی کام سے ہوگا جو اپنے ارادے سے کرے ۔ (مسلمانو! اﷲ سے یہ دعا کیا کرو کہ:) ’’ اے ہمارے پروردگار ! اگر ہم سے کوئی بھول چوک ہو جائے تو ہماری گرفت نہ فرمائیے ۔ اور اے ہمارے پروردگار ! ہم پر اس طرح کا بوجھ نہ ڈالئے جسے اٹھا نے کی ہم میں طاقت نہ ہو ۔ اور ہماری خطاؤں سے درگذر فرمائیے، ہمیں بخش دیجئے، اور ہم پر رحم فرمائیے ۔ آپ ہی ہمارے حامی و ناصر ہیں، اس لئے کافر لوگوں کے مقابلے میں ہمیں نصرت عطا فرمائیے ۔‘‘

 آیت 286:    لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَہَا :   «اللہ تعالیٰ نہیں ذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔ »

            یہ آیت اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے فضل و کرم کا مظہر ہے۔  میں نے آیت: 186 کے بارے میں کہا تھا کہ یہ دنیا میں حقوقِ انسانی کا سب سے بڑا منشور (Magna Carta) ہے کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فصل نہیں ہے:  اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ :   «میںتو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے»۔   فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ :   «پس انہیں بھی چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں»۔  گویا دو طرفہ بات چلے گی‘ یک طرفہ نہیں۔  میری مانو‘ اپنی منواؤ! تم دعائیں کرو گے‘ ہم قبول کریں گے! لیکن اگر تم ہماری بات نہیں مانتے تو پھر تمہاری دعا تمہارے منہ پر دے ماری جائے گی‘ خواہ قنوتِ نازلہ چالیس دن تو کیا اسّی دن تک پڑھتے رہو۔  یہی وجہ ہے کہ تمہاری دعاؤں کے باوجود تمہیں سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ دیکھنا پڑا‘ تمہیں یہودیوں کے ہاتھوں شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔  اگرچہ ان مواقع پر حرمین شریفین میں قنوتِ نازلہ پڑھی جاتی رہی‘ لیکن تمہاری دعائیں کیونکر قبول ہوتیں! تمہارا جرم یہ ہے کہ تم نے اللہ کو پیٹھ دکھائی ہوئی ہے‘ اس کے دین کو پاؤں تلے روندا ہوا ہے‘ اللہ کے باغیوں سے دوستی رکھی ہوئی ہے۔  کسی نے ماسکو کو اپنا قبلہ بنا رکھا تھا تو کسی نے واشنگٹن کو۔  لہٰذا تمہاری دعائیں تمہارے منہ پر دے ماری گئیں۔

            لیکن آیت زیر مطالعہ اس اعتبار سے بہت بڑی رحمت کا مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اندھے کی لاٹھی والا معاملہ نہیں ہے کہ تمام انسانوں سے محاسبہ ایک ہی سطح پر ہو۔  اللہ جانتا ہے کہ کس کی کتنی وسعت ہے اور اسی کے مطابق کسی کو ذمہ ّدار ٹھہراتا ہے۔  اور یہ وسعت موروثی اور ماحولیاتی عوامل پر مشتمل ہوتی ہے۔  ہر شخص کو جو genes ملتے ہیں وہ دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور ان genes کی اپنی اپنی خصوصیات (properties) اور تحدیدات‘ (limitations)  ہوتی ہیں۔  اسی طرح ہر شخص کو دوسرے سے مختلف ماحول میسر ّآتا ہے۔  تو ان موروثی عوامل (hereditary factors) اور ماحولیاتی عوامل (environmental factors) کے حاصل ضرب سے انسان کی شخصیت کا ایک ہیولیٰ بنتا ہے‘ جس کو مستری لوگ «پاٹن» کہتے ہیں۔  جب لوہے کی کوئی شے ڈھالنی مقصود ہو تو اس کے لیے پہلے مٹی یا لکڑی کا ایک سانچہ ( pattern) بنایا جاتا ہے۔  اس کو ہمارے ہاں کاریگر اپنی بولی میں «پاٹن» کہتے ہیں۔  اب آپ لوہے کو پگھلا  کر اس میں ڈالیں گے تو وہ اسی صورت میں ڈھل جائے گا۔  قرآن کی اصطلاح میں یہ «شاکلہ» ہے جو ہر انسان کا بن جاتا ہے۔  ارشاد باری تعالیٰ ہے :  قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہ فَرَبُّـکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَ اَھْدٰی سَبِیْلاً :   ( سورة بنی اسراءیل) «کہہ دیجیے کہ ہر کوئی اپنے شاکلہ کے مطابق عمل کر رہا ہے ۔  پس آپ کا ربّ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سیدھی راہ پر ہے»۔ اس شاکلہ کے اندر اندر آپ کو محنت کرنی ہے۔  اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کا شاکلہ وسیع تھا اور کس کا تنگ تھا‘ کس کے genes اعلیٰ تھے اور کس کے ادنیٰ تھے‘ کس کے ہاں ذہانت زیادہ تھی اور کس کے ہاں جسمانی قوت زیادہ تھی۔  اسے خوب معلوم ہے کہ کس کو کیسی صلاحیتیں ودیعت کی گئیں اور کیسا ماحول عطا کیا گیا۔  چنانچہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ماحولیاتی عوامل اور موروثی عوامل کو ملحوظ رکھ کر اُس کی استعدادات کے مطابق حساب لے گا۔ فرض کیجیے ایک شخص کے اندر استعداد ہی ۲۰ درجے کی ہے اور اس نے ۱۸ درجے کام کر دکھایا تو وہ کامیاب ہو گیا۔  لیکن اگر کسی میں استعداد سو درجے کی تھی اور اس نے ۵۰ درجے کام کیا تو وہ نا کام ہو گیا۔  حالانکہ کمیت کے اعتبار سے ۵۰ درجے ۱۸ درجے سے زیادہ ہیں۔  تو اللہ تعالیٰ کا محاسبہ جو ہے وہ انفرادی سطح پر ہے۔  اس لیے فرمایا گیا : وَکُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا :  (مریم)  «اورسب لوگ قیامت کے دن اس کے حضور فرداً فرداً حاضر ہوں گے»۔ وہاں ہر ایک کا حساب اکیلے اکیلے ہو گا اور وہ اس کی وسعت کے مطابق ہوگا۔  

             لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَہَا :   کے الفاظ میں جو ایک اہم اصول بیان کر دیا گیا ہے‘ بعض لوگ دنیا کی زندگی میں اس کا غلط نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں۔  وہ دنیا کے معاملات میں تو خوب بھاگ دوڑ کرتے ہیں لیکن دین کے معاملے میں کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے اندر صلاحیت اور استعداد ہی نہیں ہے۔  یہ محض خود فریبی ہے۔  استعداد و استطاعت اور ذہانت و صلاحیت کے بغیر تو دنیا میں بھی آپ محنت نہیں کر سکتے‘ کوئی نتائج حاصل نہیں کر سکتے‘ کچھ کما نہیں سکتے۔  لہٰذا اپنے آپ کو یہ دھوکہ نہ دیجیے اور جو کچھ کر سکتے ہوں‘ وہ ضرور کیجیے۔  اپنی شخصیت کو کھود کھود کر اس میں سے جو کچھ نکال سکتے ہوں وہ نکالیے! ہاں آپ نکال سکیں گے اتنا ہی جتنا آپ کے اندر ودیعت ہے۔  زیادہ کہاں سے لے آئیں گے؟ اور اللہ نے کس میں کیا ودیعت کیا ہے‘ وہ وہی جانتا ہے۔  تمہارا محاسبہ اسی کی بنیاد پر ہو گا جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے۔  اس مضمو ن کی اہمیت کا اندازہ کیجیے کہ یہ قرآن مجید میں پانچ مرتبہ آیا ہے۔  

             لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ :    «اسی جان کے لیے ہے جو اس نے کمایا اوراسی کے اوپر وبال بنے گا جو اس نے ُبرائی کمائی ۔ »

            اس مقام پر بھی «ل» اور «عَلٰی» کے استعمال پر غور کیجیے۔  لَھَا مَا کَسَبَتْ :  سے مراد ہے جو بھی نیکی اس نے کمائی ہو گی وہ اس کے لیے ہے‘ اس کے حق میں ہے‘ اس کا اجر و ثواب اسے ملے گا۔   وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ :  سے مراد ہے کہ جو بدی اس نے کمائی ہو گی اس کا وبال اسی پر آئے گا‘ اس کی سزا اسی کو ملے گی۔  

            اب وہ دعا آ گئی ہے جو قرآن مجید کی جامع ترین اور عظیم ترین دعا ہے :

             رَبَّـنَا لاَ تُؤَاخِذْنَــآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا :   «اے ہمارے ربّ! ہم سے مؤاخذہ نہ فرمانا اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہو جائے۔ »

            ایمان اور عمل صالح کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی شخصیت کے کونوں کھدروں میں سے امکان بھر اپنی باقی ماندہ توانائیوں (residual energies) کو بھی نکال نکال کر اللہ کی راہ میں لگا لیں‘ لیکن اس کے بعد بھی اپنی محنت پر‘ اپنی نیکی‘ اپنی کمائی اور اپنے کارناموں پر کوئی غر ّہ نہ ہو‘ کوئی غرور نہ ہو‘ کہیں انسان دھوکہ نہ کھا جائے۔  بلکہ اس کی کیفیت تواضع‘ عجز اور انکساری کی رہنی چاہیے۔  اور اسے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے پروردگار! ہماری بھول چوک پر ہم سے مؤاخذہ نہ فرمانا۔  

            انسان کے اندر خطا اور نسیان دونوں چیزیں گندھی ہوئی ہیں: (اَلْاِنْسَانُ مُرَکَّبٌ مِنَ الْخَطَأِ وَالنِّسْیَانِ) خطا یہ ہے کہ آپ نے اپنی امکانی حد تک تو نشانہ ٹھیک لگایا تھا‘ لیکن نشانہ خطا ہو گیا۔ اس پر آپ کی گرفت نہیں ہو گی‘ اس لیے کہ آپ کی نیت صحیح تھی ۔  ایک اجتہاد کرنے والا اجتہاد کر رہا ہے‘ اس نے امکانی حد تک کوشش کی ہے کہ صحیح رائے تک پہنچے‘ لیکن خطا ہو گئی۔  اللہ معاف کرے گا۔  مجتہد مخطی بھی ہو تو اس کو ثواب ملے گا اور مجتہد مصیب ہو‘ صحیح رائے پر پہنچ جائے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔  اور نسیان یہ ہے کہ بھولے سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے۔ رسول اللہ  کا ارشاد ہے: ((اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِی الْخَطَأَ وَالنِّسْیَانَ))  «اللہ تعالیٰ نے میری اُمت ّسے خطا اورنسیان معاف فرما دیا ہے۔ »

             رَبَّـنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَـیْـنَـآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَـبْلِنَا :  «اور اے ربّ ہمارے! ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ان لوگوں پر ڈالا تھا جو ہم سے پہلے تھے۔ »

            ایک حمل (بوجھ) وہ ہوتا ہے جس کو لے کر انسان چلتا ہے۔  اسی سے «حمال» بنا ہے جو ایک بوری کو یا بوجھ کو اٹھا کر چل رہا ہے۔  جو بوجھ آپ کی طاقت میں ہے اور جسے لے کر آپ چل سکیں وہ «حمل» ہے‘ اور جس بوجھ کو آپ اٹھا نہ سکیں اور وہ آپ کو بٹھا دے اس کو «اِصر» کہتے ْہیں۔  یہ لفظ سورۃ الاعراف (آیت: 157) میں پھر آئے گا:  وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ .  ان الفاظ میں ٌمحمد رسول اللہ  کی یہ شان بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے لوگوں کے وہ بوجھ جو اُن کی طاقت سے بڑھ کر تھے‘ ان کے کندھوں سے اتار دیے۔  ہم سے پہلے لوگوں پر بڑے بھاری بوجھ ڈالے گئے تھے۔  شریعت موسوی ہماری شریعت کی نسبت بہت بھاری تھی۔  جیسے ان کے ہاں روزہ رات ہی سے شروع ہو جاتا تھا‘ لیکن ہمارے لیے یہ کتنا آسان کر دیا گیا کہ روزے سے رات کو نکال دیا گیا اور سحری کرنے کی تاکید فرمائی گئی : ((تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَۃً))  «سحری ضرور کیا کرو‘ اس لیے کہ سحریوں میں برکت رکھی گئی ہے»۔ پھر رات میں تعلق زن و شو کی اجازت دی گئی۔  ان کے روزے میں خاموشی بھی شامل تھی۔  یعنی نہ کھانا‘ نہ پینا‘ نہ تعلق زن و شو اور نہ گفتگو۔  ہمارے لیے کتنی آسانی کر دی گئی ہے! ان کے ہاں یومِ سبت کا حکم اتنا سخت تھا کہ پورا دن کوئی کام نہیں کرو گے۔  ہمارے ہاں جمعہ کی اذان سے لے کر نماز کے ادا ہو جانے تک ہر کاروبارِ دنیوی حرام ہے۔  لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد آپ کاروبار کر سکتے ہیں۔  

             رَبَّـنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَۃَ لَنَا بِہ :   «اور اے ربّ ہمارے! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جس کی ہم میں طاقت نہ ہو۔ »

             وَاعْفُ عَنَّا :   «اورہم سے درگزر فرماتا رہ!»

            ہماری لغزشوں کو معاف کرتا رہ!

              وَاغْفِرْ لَـنَا :   «اور ہمیں بخشتا رہ!»

            ہماری خطاؤں کی پردہ پوشی فرما دے!

            مغفرت کے لفظ کو سمجھ لیجیے۔  اس میں ڈھانپ لینے کا مفہوم ہے۔  مِغْفَرْ ’خود‘ (ہیلمٹ) کو کہتے ہیں‘ جو جنگ میں سر پر پہنا جاتا ہے۔  یہ سر کو چھپا لیتا ہے اور اسے گولی یا تلوار کے وار سے بچاتا ہے۔  تو مغفرت یہ ہے کہ گناہوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ڈھانپ دے‘ ان کی پردہ پوشی فرما دے ۔

             وَارْحَمْنَــآ :   «اور ہم پر رحم فرما۔ »

              اَنْتَ مَوْلٰــٹنَا :   «تو ہمارا مولا ہے۔ »

            تو ہمارا پشت پناہ ہے‘ ہمارا والی ہے‘ ہمارا حامی و مددگار ہے۔  ہم یہ آیت پڑھ آئے ہیں :  اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ :  (آیت: 257)۔

             فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ :   «پس ہماری مدد فرما کافروں کے مقابلے میں۔ »

            انہی الفاظ پر وہ دعا ختم ہوئی تھی جو طالوت کے ساتھیوں نے کی تھی۔  اب اہل ایمان کو یہ دعا تلقین کی جا رہی ہے ‘اس لیے کہ مرحلہ سخت آ رہا ہے ۔  گویا :  

تاب لاتے ہی بنے گی غالب

مرحلہ سخت ہے اور جان عزیز!

اب کفار کے ساتھ مقابلے کا مرحلہ آ رہا ہے اور اس کے لیے مسلمانوں کو تیار کیا جا رہا ہے۔  یہ در حقیقت غزوه بدر کی تمہید ہے۔ 

UP
X
<>