May 5, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 285

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ

یہ رسول (یعنی حضرت محمد ﷺ) اس چیز پر ایمان لائے ہیں جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے، اور (ان کے ساتھ) تمام مسلمان بھی ۔ یہ سب اﷲ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتا بوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں ۔ (وہ کہتے ہیں کہ) ہم اس کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے (کہ کسی پر ایمان لائیں، کسی پر نہ لائیں) اور وہ یہ کہتے ہیں کہ : ’’ ہم نے (اﷲ اور رسول کے احکام کو توجہ سے) سن لیا ہے، اور ہم خوشی سے (ان کی) تعمیل کرتے ہیں ۔ اے ہمارے پروردگار! ہم آپ کی مغفرت کے طلب گار ہیں ۔ اور آپ ہی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے

 آیت 285:    اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَـیْہِ مِنْ رَّبِّہ وَالْمُؤْمِنُوْنَ :   «ایمان لائے رسول اس چیز پر جو نازل کی گئی اُن کی جانب اُن کے ربّ کی طرف سے اور مؤمنین بھی (ایمان لائے۔)»

            یہ ایک غور طلب بات اور بڑا باریک نکتہ ہے کہ نبی اکرم  پر جب وحی آئی تو آپ نے کیسے پہچان لیا کہ یہ بد روح نہیں ہے‘ یہ جبرائیل امین  ہیں؟ آخر کوئی اشتباہ بھی تو ہو سکتا تھا۔  اس لیے کہ پہلا تجربہ تھا۔  اس سے پہلے نہ تو آپ  نے کہانت سیکھی اور نہ آپ نے کوئی نفسیاتی ریاضتیں کیں۔  آپ  تو ایک کاروباری آدمی تھے اور اہل و عیال کے ساتھ بہت ہی بھرپور زندگی گزار رہے تھے۔  آپ  کا بلند ترین سطح کا امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار تھا۔  یہ درحقیقت آپ  کی فطرتِ سلیمہ تھی جس نے وحی لانے والے فرشتے کو پہچان لیا اور آپ اس وحی پر ایمان لے آئے۔  نبی کی فطرت اتنی پاک اور صاف ہوتی ہے کہ اس کے اوپر کسی بد روح وغیرہ کا کوئی اثر ہو ہی نہیں سکتا۔  بہرحال ہمارے لیے بڑی تسکین کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول  کے ایمان کے تذکرے کے ساتھ ہمارے ایمان کا تذکرہ کیا۔  اللہ تعالیٰ ہمیں اصحابِ ایمان میں شامل فرمائے۔  اللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔

             کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ :   «یہ سب ایمان لائے اللہ پر‘ اُس کے فرشتوں پر‘ اُس کی کتابوں پر اور اُس کے رسولوں پر۔ »

            سورۃ البقرۃ میں یہ دوسرا مقام ہے جہاں ایمان کے اجزاء کو گنا گیا ہے۔  قبل ازیں آیۃ البر (آیت: 177) میں اجزائے ایمان کی تفصیل بیان ہو چکی ہے۔  

              لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہ :   «(یہ کہتے ہیں کہ) ہم اللہ کے رسولوں میں کسی کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے۔ »

            یہ بات تیسری مرتبہ آگئی ہے کہ اللہ کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔  سولہویں رکوع میں ہم یہ الفاظ پڑھ چکے ہیں :   لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَنَحْنُ لَـہ مُسْلِمُوْنَ :   «ہم ان میں کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ ہی کے فرماں بردار ہیں»۔  اور سب سے پہلے (آیت: 4) میں یہ الفاظ آ چکے ہیں: وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَـیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَـبْلِکَ :  «وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں اس پر بھی جو (اے نبی ) آپ پر نازل کیا گیا اور اُس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا»۔  البتہ رسولوں کے درمیان تفضیل ثابت ہے اور ہم یہ آیت پڑھ چکے ہیں:  تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ مِنْھُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ :  (آیت: 253) «یہ رسول جو ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔  ان میں سے وہ بھی تھے جن سے اللہ نے کلام کیا اور بعض کے درجے (کسی اور اعتبار سے) بلند کر دیے۔ »

             وَقَالُـوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا :   «اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ »

             غُفْرَانَکَ رَبَّـنَا :   «پروردگار! ہم تیری بخشش مانگتے ہیں»

            غُفْرَانَکَ مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔  یعنی نَسْئَلُکَ غُفْرَانَکَ «اے اللہ! ہم تجھ سے تیری مغفرت طلب کرتے ہیں»‘ ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں۔

               وَاِلَـیْکَ الْمَصِیْرُ :   «اور تیری ہی جانب لوٹ جانا ہے۔ »

            یہاں پرایمان بالآخرۃ کا ذکر بھی آ گیا جو اوپر ان الفاظ میں نہیں آیا تھا: کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ.    ۔ اب آخری آیت آ رہی ہے۔ 

UP
X
<>