May 6, 2024

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 30

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

 اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں  وہ کہنے لگے۔ کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق پیدا کریں گے جو اس میں فساد مچائے اور خون خرابہ کرے حالانکہ ہم آپ کی تسبیح اور حمد و تقدیس میں لگے ہوئے ہیں  اللہ نے کہا : میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے 

 آیت 30:  وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓـئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً:  اور یاد کرو جب کہ کہا تھا تمہارے ربّ نے فرشتوں سے کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ۔   

            خلیفہ در حقیقت نائب کو کہتے ہیں ۔ عام طور پر لوگوں کو مغالطہ لاحق ہوتا ہے کہ خلیفہ اور جانشین کسی کی موت کے بعد مقرر ہوتا ہے ، زندگی میں نہیں ہوتا۔ لیکن اس دنیا میں انسان کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے وائسرائے کا تصور ّذہن میں رکھیے۔ 1947ء سے پہلے ہم انگریز کے غلام تھے۔ ہمارا اصل حاکم (بادشاہ یا ملکہ) انگلستان میں تھا ، جبکہ دہلی میں وائسرائے ہوتا تھا۔ وائسرائے کا کام یہ تھا کہ His Majesty  یا  Her Majesty کی حکومت کا جو بھی حکم موصول ہو اُسے بلا چون و چرا بغیر کسی تغیر اور تبدل ّ کے نافذ کرے۔ البتہ وائسرائے کو اختیار حاصل تھا کہ اگر کسی معاملے میں انگلستان سے حکم نہ آئے تو وہ یہاں کے حالات کے مطابق اپنی بہترین رائے قائم کرے۔ وہ غور و فکر کرے کہ یہاں کی مصلحتیں کیا ہیں اور جو چیز بھی سلطنت کی مصلحت میں ہو اُس کے مطابق فیصلہ کرے۔ بعینہ یہی رشتہ کائنات کے اصل حاکم اور زمین پر اُس کے خلیفہ کے ما بین ہے۔ کائنات کا اصل حاکم اور مالک اللہ تعالیٰ ہے ، لیکن اُس نے اپنے آپ کو غیب کے پردے میں چھپا لیا ہے۔ زمین پر انسان اس کا خلیفہ ہے۔ اب انسان کا کام یہ ہے کہ جو ہدایت اللہ کی طرف سے آ رہی ہے اس پر تو بے چون و چرا عمل کرے اور جس معاملے میں کوئی واضح ہدایت نہیں ہے وہاں غور و فکر اور سوچ بچار کرے اور استنباط و اجتہاد سے کام لیتے ہوئے جو بات روحِ دین سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھنے والی ہو اسے اختیار کرے۔ یہی در حقیقت رشتہ ٔخلافت ہے جو اللہ اور انسان کے ما بین ہے۔

            یہ حیثیت تمام انسانوں کو دی گئی ہے اور بالقوۃ (potentially)  ہر انسان اللہ کا خلیفہ ہے ، لیکن جو اللہ کا باغی ہو جائے ، جو خود حاکمیت کا مدعی ہو جائے تو وہ اس خلافت کے حق سے محروم ہو جاتا ہے۔ اگر کسی بادشاہ کا ولی عہد اپنے باپ کی زندگی ہی میں بغاوت کر دے اور حکومت حاصل کرنا چاہے تو اب وہ واجب القتل ہے۔ اسی طرح جو لوگ بھی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ِ اعلیٰ کے منکر ہو کر خود حاکمیت کے مدعی ہو گئے اگرچہ وہ واجب القتل ہیں، لیکن دنیا میں انہیں مہلت دی گئی ہے۔ اس لیے کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ انہیں فوراً ختم نہیں کرتا۔ ازروئے الفاظ قرآنی:   وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیْنَہُمْ. (الشوریٰ: 14) «اور اگر ایک بات پہلے سے طے نہ ہو چکی ہوتی ایک وقت ِمعین ّتک تمہارے ربّ کی طرف سے تو ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا»۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک وقت ِمعین ّتک کے لیے مہلت دی ہے لہٰذا انہیں فوری طور پر ختم نہیں کیا جاتا ، لیکن کم از کم اتنی سزا ضرور ملتی ہے کہ اب وہ خلافت کے حق سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ گویا کہ اب دنیا میں خلافت صرف خلافت المسلمین ہو گی۔ صرف وہ شخص جو اللہ کو اپنا حاکمِ مطلق مانے ، وہی خلافت کا اہل ہے۔ تو یہ چند باتیں خلافت کی اصل حقیقت کے ضمن میں یہیں پر سمجھ لیجیے۔

وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓـئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً:  اور یاد کرو جب تمہارے ربّ نے کہا تھا فرشتوں سے کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔   

             قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ:  انہوں نے کہا :کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس میں فساد مچائے گا اور خون ریزی کرے گا؟  

             وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ:  اور ہم آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس میں لگے ہوئے ہیں۔ 

              قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ:  فرمایا: میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے۔

            اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتوں کو انسان کے بارے میں یہ گمان یا یہ خیال کیسے ہوا؟ اس کے ضمن میں دو آراء ہیں: ایک تو یہ کہ انسان کی تخلیق سے پہلے اس زمین پر ّجنات موجود تھے اور انہیں بھی اللہ نے کچھ تھوڑا سا اختیار دیا تھا اور انہوں نے یہاں فساد برپا کر رکھا تھا۔ ان ہی پر قیاس کرتے ہوئے فرشتوں نے سمجھا کہ انسان بھی زمین میں فساد مچائے گا اور خون ریزی کرے گا ۔ ایک دوسری اُصولی بات یہ کہی گئی ہے کہ جب خلافت کا لفظ استعمال ہوا تو فرشتے سمجھ گئے کہ انسان کو زمین میں کوئی نہ کوئی اختیار بھی ملے گا۔ جنات ّکے بارے میں خلافت کا لفظ کہیں نہیں آیا ، یہ صرف انسان کے بارے میں آ رہا ہے۔ اور خلیفہ بالکل بے اختیار نہیں ہوتا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا جہاں واضح حکم ہے اس کا کام اس کی تنفیذ ہے اور جہاں نہیں ہے وہاں اپنے غور و فکر اور سوچ بچار کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اسے بہتر سے بہتر رائے قائم کرنا ہوتی ہے۔ ظاہر بات ہے جہاں اختیار ہو گا وہاں اس کے صحیح استعمال کا بھی امکان ہے اور غلط کا بھی۔  پولٹیکل سائنس کا تو یہ مسلمہ اصول (axiom)ہے:

"Authority tends to corrupt and absolute authority corrupts  absolutely."

چنانچہ اختیار کے اندر بدعنوانی کا رُجحان موجود ہے۔ اس بنا پر انہوں نے قیاس کیا کہ انسان کو زمین میں اختیار ملے گا تو یہاں فساد ہو گا ، خون ریزی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی حکمتوں سے مَیں خود واقف ہوں۔ میں انسان کو خلیفہ کیوں بنا رہا ہوں ، یہ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔

UP
X
<>