May 2, 2024

قرآن کریم > طه >surah 20 ayat 120

فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰٓاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى

پھر شیطان نے اُن کے دل میں وسوسہ ڈالا۔ کہنے لگا : ’’ اے آدم ! کیا میں تمہیں ایک ایسا درخت بتاؤں جس سے جاودانی زندگی اور وہ بادشاہی حاصل ہوتی ہے جو کبھی پرانی نہیں پڑتی؟‘‘

 آیت ۱۲۰:  فَوَسْوَسَ اِلَـیْہِ الشَّیْطٰنُ:   «تو وسوسہ ڈالا اس کے ذہن میں شیطان نے۔»

            قَالَ یٰٓاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰی:   «اس نے کہا: اے آدم ! کیا میں بتاؤں تجھے ہمیشہ رہنے والے درخت اور ایسی بادشاہی کے بارے میں جو کبھی پرانی نہ ہو؟»

            کہ اس درخت کا پھل کھانے کے بعد آپ کو دوام حاصل ہو جائے گا اور زندگی کے لیے کبھی فنا کا خدشہ نہیں ہو گا۔ گویا شیطان نے اپنی پہلی سازش کا جال انسان کی اسی کمزوری کو بنیاد بنا کر بنا تھا جس کا ذکر سوره مریم کی آیت: ۹۲ کے ضمن میں گزر چکا ہے۔ یہاں اہرام مصر کے حوالے سے درج ذیل الفاظ ایک دفعہ پھر سے ذہن میں تازہ کر لیجیے:

They defined cry of mans will   

To survive and conquer the storms of time

یعنی انسان وقت کے طوفانوں کو فتح کر لینا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس کی ہستی کو اس دنیا میں دوام اور تسلسل نصیب ہو۔ چنانچہ شیطان نے انسانِ اول کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر فانی زندگی اور ہمیشہ کی بادشاہی مل جانے کا جھانسہ دے کر اسے ممنوعہ درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کر لیا۔

UP
X
<>