May 19, 2024

قرآن کریم > طه >surah 20 ayat 96

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِيْ نَفْسِيْ

وہ بولا : ’’ میں نے ایک ایسی چیز دیکھ لی تھی جو دوسروں کو نظر نہیں آئی تھی۔ اس لئے میں نے رسول کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی اُٹھا لی، اور اُسے (بچھڑے پر) ڈال دیا۔ اور میرے دل نے مجھے کچھ ایسا ہی سجھایا۔‘‘

 آیت ۹۶:  قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا بِہ:   «اُس نے کہا کہ میں نے (ایک ایسی چیز) دیکھی تھی جو انہوں نے نہیں دیکھی»

            فَقَبَضْتُ قَـبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَـنَـبَذْتُہَا:   «تو میں نے لے لی ایک مُٹھی (مٹی کی) رسول کے نقشِ پا سے، تو وہ میں نے (اس میں) پھینک دی»

            وَکَذٰلِکَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ:   «اور اسی طرح میرے نفس نے یہ راستہ مجھے بتایا۔»

            رسول سے مراد یہاں حضرت جبرائیل ہیں۔ حضرت جبرائیل کہیں حضرت موسی ٰ کے پاس آئے تھے تو سامری نے انہیں دیکھ لیا۔ سامری چونکہ راہب تھا، وہ روحانی اور نفسیاتی نوعیت کے مجاہدے بھی کرتا رہتا تھا۔ اس لیے حضرت جبرائیل کسی اور کو تو نظر نہ آئے مگر اسے نظر آ گئے۔ زمین پر جہاں آپ کا قدم پڑ رہا تھا وہاں سے اس نے کچھ مٹی اٹھا لی۔ یہی مٹی اس نے اس بھٹی میں ڈال دی جس میں وہ بچھڑا تیار کرنے کے لیے زیورات کو پگھلا رہا تھا۔ یوں حضرت روح الامین کے قدموں کی مٹی کی تاثیر سے اس بچھڑے سے وہ آواز آنے لگی۔ یہ گویا اس معاملے کے بارے میں سامری کی وضاحت ہے۔

UP
X
<>