May 1, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 22 ayat 11

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ 

اور لوگوں میں وہ شخص بھی ہے جو ایک کنارے پر رہ کر اﷲ کی عبادت کرتا ہے۔ چنانچہ اگر اُسے (دنیا میں ) کوئی فائدہ پہنچ گیا تو وہ اُس سے مطمئن ہوجاتا ہے، اور اگر اُسے کوئی آزمائش پیش آگئی تو وہ منہ موڑ کر (پھر کفر کی طرف) چل دیتا ہے۔ ایسے شخص نے دُنیا بھی کھوئی، اور آخرت بھی۔ یہی تو کھلا ہو ا گھاٹا ہے

 آیت ۱۱:  وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ:   «اور لوگوں میں سے کوئی وہ بھی ہے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے کنارے پر رہ کر۔»

            انسانی دل کے اس روگ کی نشان دہی سورۃ البقرۃ کی آیت: ۱۰ میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:    فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ:   «ان کے دلوں میں مرض ہے»۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حق کا ساتھ دینا تو چاہتے ہیں، لیکن اس کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کو تیار نہیں۔ وہ گہرے پانی میں جانے کا خطرہ مول لینے کے بجائے کنارے پر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مبادا کہ اس سفر میں کوئی گزند پہنچ جائے یا کوئی مالی نقصان اٹھانا پڑ جائے۔ وہ لوگ بڑی چالاکی کے ساتھ اس قسم کے سب خطرات سے خود کو محفوظ فاصلے پر رکھ کر حق کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، لیکن اس راستے میں ایسا طرزِ عمل قابل قبول نہیں ہے۔ یہ تو سرا سر قربانی کا راستہ ہے۔ اس راستے میں اپنی جان اور اپنے مال کو بچا بچا کر رکھنے والے فرزانوں کی نہیں بلکہ قدم قدم پر قربانیاں دینے والے دیوانوں کی ضرورت ہے۔ اسی فلسفے کو اقبال نے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے:

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ

کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں !

ایسے لوگوں کے مقابلے میں دوسری طرف کچھ وہ لوگ ہیں جو حق کو قبول کرتے ہی یہ نعرہ بلند کرتے ہوئے منجدھار میں کود پڑتے ہیں:   ع «ہر چہ بادا باد، ماکشتی در آب انداختیم!» کہ اب جو ہو سو ہو، ہم تو حق کی اس کشتی میں سوار ہو کر اسے دریا میں ڈال چکے ہیں۔ اب یہ تیرے گی تو ہم بھی تیریں گے اور اگر اس راستے میں ہماری جان بھی چلی جائے تو ہم اس قربانی کے لیے بھی تیار ہیں۔

            فَاِنْ اَصَابَہُ خَیْرُ اطْمَاَنَّ بِہِ:   «تو اگر اُسے کوئی فائدہ پہنچے تو اس پرمطمئن رہتا ہے۔»

            وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہِ:   «اور اگر اسے کوئی آزمائش آ جائے تو اپنے منہ کے بل اُلٹا پھر جاتا ہے۔»

            ایسے لوگ موافق حالات میں تو ہر کام میں اہل ایمان کے ساتھ شریک رہتے ہیں، لیکن اگر کہیں اللہ کی راہ میں نکلنے کا مرحلہ آ جائے یا کسی اور قربانی کا تقاضا ہو تو چپکے سے واپسی کی راہ لے لیتے ہیں۔

            خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ:   «وہ خسارے میں رہا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔»

            ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ:   «یہی تو کھلا خسارہ ہے۔»

            یہ بہت ہی نمایاں اور واضح تباہی ہے۔

            اس آیت میں منافقانہ کردار کا ذکر ہے۔ اسی طرح اس سورت میں جہاد کا ذکر بھی ملتا ہے۔ منافقت اور جہاد چونکہ مدنی سورتوں کے موضوعات ہیں اس لیے سورۃ الحج کو بعض مفسرین مدنی سورت مانتے ہیں، لیکن میرے نزدیک یہ مکی ہے۔ تفسیر طبری میں منقول حبر الامت حضرت عبداللہ بن عباس کے قول سے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ اس سورت کی کچھ آیات (۳۸ تا ۴۱) اثنائے سفر ہجرت میں نازل ہوئیں۔ چنانچہ ان آیات کو «برزخی آیات» کہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ سورۃ الحج کو اس بنا پر بھی مدنی سمجھا جاتا ہے کہ اس کی بعض آیات کی سورۃ البقرۃ کی بعض آیات کے ساتھ گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ مثلاً سورۃ البقرۃ کی آیت: ۱۴۳ اور سورۃ الحج کی آخری آیت میں «شہادت علی الناس» کا مضمون بالکل ایک جیسے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اسی طرح زیر نظر آیت میں منافقین کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے وہ اس کیفیت سے بہت مشابہت رکھتی ہے جس کا نقشہ سورۃ البقرۃ کے دوسرے رکوع میں کھینچا گیا ہے کہ جب بجلی چمکتی ہے تو یہ لوگ کچھ چل پھر لیتے ہیں لیکن جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں۔ بہر حال مدینہ میں حضور کے سامنے منافقین کا بالکل وہی حال تھا جس کی تصویر سورۃ البقرۃ کی مذکورہ تمثیل اور زیر مطالعہ آیت میں دکھائی گئی ہے۔ جب کسی جنگ یا کسی مہم کا تقاضا نہ ہوتا تو یہ لوگ حضور کی محفل میں باقاعدگی سے حاضر ہوتے اور بڑے بڑے دعوے کرتے، مگر جونہی کسی قربانی کا مرحلہ آتا تو گویا اوندھے منہ گر پڑتے تھے۔ دعا کریں کہ اللہ ہمیں اس بیماری سے بچائے اور اقامت دین کی جدوجہد میں پورے خلوص کے ساتھ ہمہ تن اور ہمہ وجوہ اپنے آپ کو جھونک دینے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین!)

UP
X
<>