May 8, 2024

قرآن کریم > الحج >surah 22 ayat 52

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلاَّ إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ 

اور (اے پیغمبر !) تم سے پہلے ہم نے جب بھی کوئی رسول یا نبی بھیجا تو اس کے ساتھ یہ واقعہ ضرور ہوا کہ جب اُس نے (اﷲ کا کلام) پڑھا تو شیطان نے اُس کے پڑھنے کے ساتھ ہی (کفار کے دلوں میں ) کوئی رُکاوٹ ڈال دی، پھر جو رُکاوٹ شیطان ڈالتا ہے، اﷲ اُسے دور کر دیتا ہے، پھر اپنی آیتوں کو زیادہ مضبوط کر دیتا ہے، اور اﷲ بڑے علم کا، بڑی حکمت کا مالک ہے

 آیت ۵۲:  وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلَّآ اِذَا تَمَنّٰیٓ اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہِ:   «اور ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کوئی رسول اور نہ کوئی نبی، مگر یہ کہ جب اُس نے خود کوئی خیال باندھا تو شیطان نے اُس کے خیال میں خلل اندازی کی۔»

             لفظ «تمنا» اردو میں بھی مستعمل ہے۔ لغوی اعتبار سے اس مادہ میں آرزو اور خواہش کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی جس طرح ایک عام آدمی سوچتا ہے، خواہش کرتا ہے اور مختلف امور میں منصوبہ بندی کرتا ہے اسی طرح نبی اور رسول بھی سوچتا ہے اور منصوبہ بندی کرتا ہے۔ مثلاً ابو طالب کی وفات کے بعد جب ابو لہب بنو ہاشم کا سردار بن گیا اور اس کی ذاتی دشمنی کے باعث آپ کو اپنے قبیلے کی پشت پناہی حاصل نہ رہی تو آپ نے سوچا کہ اب کیا کروں؟ (ع «کس طرف جاؤں، کدھر دیکھوں، کسے آواز دوں!») چنانچہ ان حالات میں آپ نے طائف کا سفر کرنے کا منصوبہ بنایا، لیکن وہاں سے کوئی مثبت جواب نہ ملا اور آپ کو بظاہر ناکام لوٹنا پڑا۔ بلکہ حضرت عائشہ کی روایت کے مطابق وہ دن آپ کی زندگی کا سخت ترین دن (یومِ اُحد سے بھی زیادہ سخت) ثابت ہوا۔ بہر حال آپ نے منصوبہ بندی بھی کی اور اس کے مطابق کوشش بھی کی۔ یہ الگ بات تھی کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت میں یہ سعادت اہل ِطائف کے بجائے اہل ِیثرب کی قسمت میں لکھی گئی تھی۔ تو جب کوئی نبی اپنی منصوبہ بندی کرتا ہے تو شیطان اپنی طرف سے ان کے خیال میں کچھ نہ کچھ خلل ضرور ڈالتا ہے۔

            عصمت ِانبیاء کے بارے میں تمام اہل ایمان چونکہ بہت حساس ہیں اس لیے  آیت زیر مطالعہ کے الفاظ سے جو مفہوم بظاہر سامنے آتا ہے وہ گویا ہر مسلمان کے حلق میں پھنس جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  آیت کی تفسیر و تشریح میں بہت سی دور ازکار تاویلات بھی لائی گئی ہیں۔ بہر حال میرے خیال میں یہ بالکل سیدھا سادہ مسئلہ ہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ کسی رسول یا نبی کی شخصیت اور خواہشات و تعلیمات کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو وہ ہے جو براہِ راست وحی الٰہی کے تابع ہے۔ اس پہلو سے متعلق معاملات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی جلی یا وحی خفی کے ذریعے سے براہِ راست واضح ہدایات ملتی رہتی ہیں۔ ان ہدایات یا احکام میں کسی خطا یا غلطی کا کوئی امکان نہیں اور نہ ہی اس میں شیطان یا شیطانی قوتیں کسی قسم کی در انداز ی کر سکتی ہیں۔

            دوسری طرف نبی کی شخصیت کا ایک ذاتی اور نجی پہلو بھی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نبی کی کوئی ذاتی شخصیت یا سوچ ہوتی ہی نہیں، بلکہ بہت سے معاملات میں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کو ایک حکم دے دیا جاتا ہے اور اس حکم پر عمل کرنے کے بارے میں نبی خود سوچتا ہے، خود منصوبہ بندی کرتا ہے اور خود فیصلہ کرتا ہے۔ مثلاً حضور کو ایک حکم دے دیا گیا:  وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ: (الشعراء) کہ آپ تبلیغ شروع کیجیے اور اس سلسلے میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبر دار کیجیے۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے حضور نے حضرت علی کو ایک ضیافت کا انتظام کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے بنو ہاشم کے تمام مَردوں کو مدعو کیا اور سب کو کھانا کھلایا۔ آپ نے ان تک اپنا دعوتی پیغام پہنچانے کے لیے یہی طریقہ مناسب خیال کیا۔ گویا ایسے کسی حکم پر عمل کے لیے جزئیات کی منصوبہ بندی کرنے کا تعلق نبی کے ذاتی اجتہاد سے ہے۔ چنانچہ ان تدبیری معاملات کا وہ درجہ نہیں ہوتا جو براہِ راست وحی کی ہدایت کا ہوتا ہے۔

            اس فرق کو صحابہ کرام بہت اچھی طرح سمجھتے تھے اور اس کی بہت سی عملی مثالیں بھی ہمیں سیرت سے ملتی ہیں۔ مثلاً غزوه بدر کے موقع پرآپ نے ایک جگہ کی تخصیص فرما کر حکم دیا کہ لشکر کا کیمپ اس جگہ پر لگایا جائے۔ اس پر کچھ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر اس جگہ کے انتخاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص حکم ہے تو سر ِتسلیم خم ہے! لیکن اگر یہ آپ کی رائے ہے تو ہمیں بھی اپنی رائے پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ آپ نے نہ صرف انہیں رائے دینے کی اجازت دی بلکہ ان کی رائے کو قبول بھی فرمایا اور لگے لگائے کیمپ کو اکھاڑ کر ان کی تجویز کردہ جگہ پر لگانے کا حکم دیا۔ یہ چونکہ حضور کی ذاتی تدبیر تھی اس لیے صحابہ کو بھی اس میں اختلاف کی گنجائش محسوس ہوئی اور انہوں نے اپنے عملی تجربات کی روشنی میں رائے دی۔ دوسری طرف اگر یہ فیصلہ وحی کی روشنی میں کیا گیا ہوتا تو کیمپ کے اکھاڑے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔

            اسی طرح «تابیر نخل» کے معاملے کی مثال بھی بہت واضح ہے۔ رسول اللہ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ وہاں پر کھجور کے درختوں کو بار آور کرنے کے لیے زیرہ پوشی کا مصنوعی طریقہ (artificial pollination) اختیار کیا جاتا تھا، یعنی نر درخت کے پھولوں کو مادہ درخت کے پھولوں پر جھاڑا جاتا تھا۔ آپ نے کچھ لوگوں کو یہ عمل کرتے دیکھا تو فرمایا کہ اگر تم لوگ ایسا نہ کرو تو شاید بہتر ہو! آپ کے ایسا فرمانے پر لوگو ں نے اس سال وہ عمل نہ کیا تو اس کے نتیجے میں فصل واضح طور پر کم ہوئی۔ اس پر ان لوگو ں نے حضور سے عرض کیا کہ اس سال ہم نے تابیر نخل کے مروّجہ طریقے پر عمل نہیں کیا تو ہماری فصل کم ہوئی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا:  ((اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاَمْرِ دُنْیَاکُمْ)) یعنی آپ لوگ اپنے دُنیوی امور کے بارے میں مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ محدثین عظام پر اپنی خصوصی رحمتیں، برکتیں اور نعمتیں نازل فرمائے۔ ان لوگوں کی محنتوں اور کوششوں سے حضور کی احادیث محفوظ ہوئیں اور پھر ہم تک پہنچ کر ہماری راہنمائی کا ذریعہ بنیں۔ حضور کے اس فرمان کا مقصد اور مفہوم یہی ہے کہ دُنیوی معاملات کے مختلف شعبوں میں تم لوگوں کو ایسے تجربات حاصل ہیں جو مجھے حاصل نہیں اور میں تم لوگوں کو ان معاملات میں تعلیم دینے کے لیے مبعوث بھی نہیں ہوا۔ میں تم لوگوں کو زراعت کے اصول سکھانے کے لیے نہیں آیا۔ میں تو تم لوگوں کو ہدایت دینے کے لیے آیا ہوں اور یہی میری رسالت کا بنیادی مقصد اور موضوع ہے۔ چنانچہ رسالت سے متعلق امور میں آپ لوگوں کے لیے میرا اتباع لازمی ہے، لیکن دنیوی معاملات تم لوگ اپنے تجرباتی علم کی بنیاد پر ہی انجام دو۔ اگر دیکھا جائے تو اہل ِمدینہ کا تابیر نخل سے متعلق مذکورہ عمل سائنسی اصولوں پر مبنی تھا۔ سائنس کی بنیاد تجربات پر رکھی گئی ہے اور سائنسی علوم کا ارتقاء (development) بھی تجربات کے ذریعے سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ فرما کر حضور نے تجرباتی یا سائنسی علوم کی گویا حوصلہ افزائی فرمائی کہ اپنے دُنیوی معاملات کو تم لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہو اور یہ کہ ان امور کو تم لوگ اپنے تجرباتی علم کی بنیاد پر ہی انجام دیا کرو۔

            اس ساری بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ نبی یا رسول کی وہ تعلیمات اور وہ ہدایات جو براہِ راست وحی الٰہی کے تابع ہوں ان میں نہ تو کسی قسم کی خطا کا امکان ہے اور نہ ہی ان کے اندر شیطانی قوتوں کی در اندازی کا کوئی احتمال ہے، لیکن عام دنیوی امور اور ان کی جزئیات کے بارے میں فیصلے کرتے ہوئے جہاں ایک نبی یا رسول اپنے ذاتی اجتہاد سے کام لے رہا ہو وہاں پر کسی خطا یا شیطانی خلل اندازی کا امکان موجود رہتا ہے۔ میری یہ توجیہ «موضح القرآن» میں بیان کردہ شاہ عبدالقادر کی رائے کے قریب ترین ہے، لہٰذا مجھے اس پر پورا اطمینان ہے۔

            فَیَنْسَخُ اللّٰہُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہِ:   «تو اللہ منسوخ کر دیتا ہے اسے جو کچھ شیطان نے ڈالا ہوتا ہے، پھر اللہ اپنے فیصلوں کو پختہ کر دیتا ہے۔»

            وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ:   «اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔» 

UP
X
<>