May 19, 2024

قرآن کریم > الفرقان >sorah 25 ayat 30

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا

اور رسول کہیں گے کہ :’’ یا رَبّ ! میری قوم اس قرآن کو بالکل چھوڑ بیٹھی تھی۔‘‘

آیت ۳۰   وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا: ’’اور رسولؐ نے کہا (یا رسول کہے گا) : اے میرے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ ی ہوئی چیز بنا دیا۔‘‘

      تاویل ِخاص کے مطابق حضور کی یہ شکایت قریش ِمکہ ّکے بارے میں ہے کہ اے میرے پروردگار! میں نے تیراپیغام ان تک پہنچانے اور انہیں قرآن سنانے کی ہر امکانی کوشش کی ہے، لیکن یہ لوگ کسی طرح اسے سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں، جبکہ اس آیت کی تاویل ِعام یہ ہے کہ حضور کی یہ شکایت قیامت کے دن اپنی امت کے ان افراد کے خلاف ہو گی جو اس ’’مہجوری‘‘ کے مصداق ہیں، کہ ان لوگوں نے قرآن کو لائق التفات ہی نہ سمجھا۔ علامہ اقبال کے اس مصرعے میں اسی آیت کی تلمیح پائی جاتی ہے : ع

’’خوار از مہجوریٔ قرآں شدی‘‘

کہ اے مسلمان آج تو اگر ذلیل و خوار ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔

      اس سلسلے میں ایک بہت اہم اور قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ قریش ِمکہ ّنے تو اپنی خاص ضد اور ڈھٹائی میں قرآن کو اس موقف کے تحت ترک کیا تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے ہی نہیں اور محمد نے خود اپنی طرف سے اسے گھڑلیا ہے۔ لیکن آج اگر کوئی شخص کہے کہ میں قرآن پر ایمان رکھتا ہوں اوراسے اللہ کا کلام مانتا ہوں، مگر عملی طور پر اس کا رویہ ایسا ہو کہ وہ قرآن کو لائق ِاعتناء نہ سمجھے، نہ اسے پڑھنا سیکھے، نہ کبھی اس کے پیغام کو جاننے کی کوشش کرے تو گویا اس کے حال یا عمل نے اس کے ایمان کے دعوے کی تکذیب کر دی۔ چنانچہ اس آیت کے حاشیے (ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ) میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے ہیں : ’’آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا، اس میں تدبر نہ کرنا، اُس پر عمل نہ کرنا، اُس کی تلاوت نہ کرنا، اس کی تصحیح قراء ت کی طرف توجہ نہ کرنا، اُس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا، یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجرانِ قرآن کے تحت میں داخل ہو سکتی ہیں۔‘‘

      مقامِ غور ہے کہ آج اگر ہم اپنی دنیا سنوارنے کے لیے انگریزی زبان میں تو مہارت حاصل کر لیں لیکن قرآن کا مفہوم سمجھنے کے لیے عربی زبان کے بنیادی قواعد سیکھنے کی ضرورت تک محسوس نہ کریں، تو قرآن پر ہمارے ایمان کے دعوے اور اس کو اللہ کا کلام ماننے کی عملی حیثیت کیا رہ جائے گی؟ چنانچہ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ قرآن کے حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل کرے، اس سلسلے میں عملی تقاضوں کو سمجھے اور ان تقاضوں پر عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتا رہے۔ اس موضوع پر میرا ایک نہایت جامع کتابچہ ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ دستیاب ہے۔ اس کا انگلش، عربی، فارسی اور ملایا زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ قرآن کے حقوق کا ادراک حاصل کرنے کے لیے اس کتابچے کا مطالعہ ان شاء اللہ بہت مفید ثابت ہو گا۔

UP
X
<>