May 7, 2024

قرآن کریم > الفرقان >sorah 25 ayat 32

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلاً

اور یہ کافر لوگ کہتے ہیں کہ : ’’ ان پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ میں کیوں نازل نہیں کر دیا گیا؟‘‘ (اے پیغمبر !) ہم نے ایسا اس لئے کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہارا دل مضبوط رکھیں ، اور ہم نے اُسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھوایا ہے

آیت ۳۲   وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً: ’’اور ان کافروں نے یہ بھی کہا کہ اِس پر یہ قرآن پورے کا پورا ایک ہی دفعہ کیوں نہ اتار دیا گیا؟‘‘

      قریش مکہ کا قرآن پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر واقعی یہ اللہ کا کلام ہے تو پھر اکٹھا ایک ساتھ ہی نازل کیوں نہیں ہو جاتا؟ جیسے حضرت موسیٰ کو پوری کی پوری تورات تختیوں پر لکھی ہوئی ایک ہی دفعہ دے دی گئی تھی۔ قرآن کو تھوڑا تھوڑا پیش کرنے سے مشرکین کو حضور پر ایک شاعر کا گمان ہوتا تھا، کیونکہ شاعر لوگ بھی ایک دم سے اپنا پورا کلام پیش نہیں کر سکتے۔ وہ ایک ایک دو دو غزلیں یا نظمیں لکھتے رہتے ہیں اور مدت کے بعد جا کر کہیں ان کے دیوان مکمل ہوتے ہیں۔

      کَذٰلِکَ لِنُثَـبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ: ’’اس طرح (اس لیے نازل کیا گیا ہے) تا کہ اس کے ذریعے سے ہم آپؐ کا دل مضبوط کریں‘‘

      اس کو ہم اچھی طرح آپؐ کے ذہن نشین کرتے رہیں اور اس پر آپ کا دل پوری طرح ٹُھک جائے۔

      وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا: ’’اور (اسی لیے) ہم نے اسے تدریج و اہتمام کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔‘‘

      قرآن کو تھوڑا تھوڑا نازل کرنے میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ رسول اللہ اور اہل ایمان کو ہر موقع محل کے مطابق بر وقت راہنمائی ملتی رہے۔ اس کے علاوہ اس میں اہل ِایمان کے لیے تسلی اور تسکین کا پہلو بھی تھا کہ اللہ ہمارے حالات کو دیکھ رہا ہے۔ مشکل حالات میں سابقہ قوموں کے حالات پڑھ کر ان کے دلوں کو سہارا ملتا تھا کہ جس طرح اللہ نے حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت صالح کے ساتھیوں کی مدد کی تھی اور ان کے دشمنوں کو ملیا میٹ کر دیا تھا اسی طرح وہ ہمیں بھی کامیاب کر ے گا۔

UP
X
<>