May 6, 2024

قرآن کریم > العنكبوت >sorah 29 ayat 60

وَكَأَيِّن مِن دَابَّةٍ لا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

اور کتنے جانور ہیں جو اپنا رزق اُٹھائے نہیں پھرتے ! اﷲ اُنہیں بھی رزق دیتا ہے، اور تمہیں بھی، اور وہی ہے جو ہر بات سنتا، ہر چیز جانتا ہے

آیت ۶۰   وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَا: ’’اور کتنے ہی جاندار ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے۔‘‘

      تمہارے رزق کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ خود ہے، لہٰذا اس کے لیے تم اللہ پر توکل ّکرو اور اُس کے سوا کسی اور کی طرف مت دیکھو۔ دنیا میں کبھی کسی کے بارے میں ایسا مت سوچو کہ وہ ناراض ہو گیا تو تمہاری ضروریات کا کیا بنے گا۔ ٭

       متی کی انجیل میں حضرت مسیح کا جو وعظ (پہاڑی کا وعظ ) نقل ہوا ہے اس میں یہ مضمون بڑے خوبصورت انداز میں بیان ہوا ہے۔ حضرت مسیح اپنے شاگردوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں ؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟ تم میں ایسا کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو؟جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں ۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کاتتے ہیں ۔ تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کے مانند ملبس ّنہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تواے کم اعتقادو، تم کو کیوں نہ پہنائے گا؟ اس لیے فکر مند ہوکر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے؟ کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راست بازی کو تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ پس کل کے لیے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لیے آپ فکر کر لے گا۔ آج کے لیے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔‘‘ (متی، باب ۶:۲۵۔ ۳۴، بحوالہ تدبر قرآن، جلد پنجم، ص۶۰)

      اس ضمن میں یہ نکتہ ذہن نشین کر لیں کہ توکل اور ایمان ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ کسی شخص کا اللہ پر ایمان جس قدر پختہ ہو گا، اسی قدر اس کا اُس پر توکل بھی مضبوط ہو گا اور اگر ایمان کمزور ہو گا تو پھر توکل بھی کمزور پڑ جائے گا۔

      اَللّٰہُ یَرْزُقُہَا وَاِیَّاکُمْ  وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ: ’’اللہ انہیں بھی رزق دیتا ہے اور وہ تم لوگوں کو بھی دے گا، اور یقینا وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘

      وہ ہر حاجت مند کی التجا کو سنتا ہے، اسے ہر ایک کی ضرورت کا علم ہے، وہ اپنے ہر بندے کے حالات سے باخبر رہتا ہے، کیا اسے خبر نہ ہو گی کہ میرا فلاں بندہ اس وقت بھوکا ہے؟ کیا اسے معلوم نہ ہوگا کہ میرا فلاں وفادار تمام اسباب کو ٹھکرا کر مجھ پر توکل کیے بیٹھا ہے؟ بلاشبہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اُس نے کس محتاج کی حاجت روائی کا کیا بندوبست کرنا ہے اور کس بندے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کسے وسیلہ بنانا ہے۔ اب آئندہ آیات میں خطاب کا رخ پھر مشرکین ِمکہ کی طرف ہے۔

UP
X
<>