May 12, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 102

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

اے ایمان والو ! دل میں اﷲ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے، اور خبردار ! تمہیں کسی اور حالت میں موت نہ آئے، بلکہ اسی حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو

 

اب سوره آل عمران کا نصف ِثانی شروع ہو رہا ہے‘ جس کا پہلا حصہ دو رکوعوں پر مشتمل ہے۔ آپ نے یہ مشابہت بھی نوٹ کر لی ہو گی کہ سورۃ البقرۃ کے  نصف ِاوّل میں بھی ایک مرتبہ  یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا سے خطاب تھا: یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا. اسی طرح سوره آل عمران کے نصف ِاوّل میں بھی ایک آیت اوپر آ چکی ہے: یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْـکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ. لیکن مسلمانوں سے اصل خطاب گیارہویں رکوع سے شروع ہو رہا ہے اور یہاں پر اصل میں اُمت کو ایک سہ نکاتی لائحہ عمل دیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اُمت اب قیامت تک قائم رہنے والی ہے‘ اور اس میں زوال بھی آئے گا اور اللہ تعالی اولو العزم اور باہمت لوگوں کو بھی پیدا کرے گا‘ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ مجددین اُمت ہر صدی کے اندر اٹھتے رہے۔  لیکن جب بھی تجدید دین کا کوئی کام ہو‘ دین کو ازسر ِنو تروتازہ کرنے کی کوشش ہو‘ دین کو قائم کرنے کی جدوجہد ہو تو اُس کا ایک لائحہ عمل ہو گا۔ وہ لائحہ عمل سوره آل عمران کی ان تین آیات: (102‘ 103‘ 104) میں نہایت جامعیت کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ یہ بھی تین آیات ہیں جیسے سورۃ العصر کی تین آیات ہیں‘ جو نہایت جامع ہیں۔ ان آیات کے مضامین پر میری ایک کتاب بھی موجود ہے ’’اُمت ِمسلمہ کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل‘‘ اوراس کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس لائحہ عمل کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی کام کرنا ہے تو سب سے پہلے افراد کی شخصیت سازی‘ کردار سازی کرنا ہو گی۔ چنانچہ فرمایا:

 

 آیت ۱۰۲    یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہ:  ’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اُس کے تقویٰ کا حق ہے‘‘

 

             وَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ:   ’’اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمان برداری کی حالت میں۔‘‘

 

            قرآن مجید میں تقویٰ کی تلقین کے لیے یہ سب سے گاڑھی آیت ہے۔ اس پر صحابہ‘ گھبرا گئے کہ یارسول اللہ ! اللہ کے تقوی کا حق کون ادا کر سکتا ہے؟ پھر جب سورۃ التغابن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَااسْتَطَعْتُمْ.  (آیت: 14) ’’اپنی امکانی حد تک اللہ کا تقویٰ اختیارکرو‘‘ تب ان کی جان میں جان آئی ۔ تقویٰ کے حکم کے ساتھ ہی یہ فرمایا کہ ’’مت مرنا مگر حالت فرمانبرداری میں‘‘۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی پتہ نہیں کس لمحے موت آ جائے‘ لہٰذا تمہارا کوئی لمحہ نافرمانی میں نہ گزرے‘ مبادا موت کا ہاتھ اسی وقت آ کر تمہیں دبوچ لے ۔ اگر پہلے اس طرح کی شخصیتیں نہ بنی ہوں تو اجتماعی اصلاح کا کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ اس لیے پہلے افراد کی کردار سازی پر زور دیا گیا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ایک اجتماعیت اختیار کرو۔



UP
X
<>