April 28, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 103

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اﷲ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اﷲ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اﷲ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اﷲ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی ۔ اسی طرح اﷲ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتا ہے، تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ ۔

آیت ۱۰۳:    وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا:  ’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘

            یاد رہے کہ اس سے پہلے آیت: ۱۰۱ ان الفاظ  پر ختم ہوئی ہے:   وَمَنْ یَّـعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.  ’’اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے چمٹ جائے (اللہ کی حفاظت میں آ جائے) اس کو تو ہدایت ہو گئی صراطِ مستقیم کی طرف‘‘۔سورۃ الحج کی آخری آیت میں بھی یہ لفظ آیا ہے:  وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ. ’’اور اللہ سے چمٹ جائو!‘‘ اب اللہ کی حفاظت میں کیسے آیا جائے؟ اللہ سے کیسے چمٹیں؟ اس کے لیے فرمایا: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ:  کہ اللہ کی رسی سے چمٹ جاؤ‘ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ۔ اور یہ اللہ کی رسّی کونسی ہے؟ متعدد احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ’’قرآن‘‘ ہے۔ ایک طرف انسان میں تقویٰ پیدا ہو‘ اور دوسری طرف اس میں علم آنا چاہیے‘ قرآن کا فہم پیدا ہونا چاہیے‘ قرآن کے نظریات کو سمجھنا چاہیے‘ قرآن کی حکمت کو سمجھنا چاہیے۔ انسانوں میں اجتماعیت جانوروں کے گلوں کی طرح نہیں ہو سکتی کہ بھیڑبکریوں کا ایک بڑا ریوڑ ہے اور ایک چرواہا ایک لکڑی لے کر سب کو ہانک رہا ہے۔ انسانوں کو جمع کرنا ہے تو ان کے ذہن ایک جیسے بنانے ہوں گے ‘ان کی سوچ ایک بنانی ہو گی۔ یہ حیوانِ عاقل ہیں‘ باشعور لوگ ہیں۔ ان کی سوچ ایک ہو‘ نظریات ایک ہوں‘ مقاصد ایک ہوں‘ ہم آہنگی ہو‘ نقطہ ٔ‘ نظر ایک ہو تبھی تو یہ جمع ہوںگے۔ اس کے لیے وہ چیز چاہیے جواُن میں یک رنگی ٔ خیال‘ یک رنگی ٔ  نظر ‘ یک جہتی اور مقاصد کی ہم آہنگی پیدا کر دے‘ اور وہ قرآن ہے‘ جو ’’حبل اللہ‘‘ ہے۔

            حضرت علی سے مروی طویل حدیث میں قرآن حکیم کے بارے میں رسول اللہ  کے الفاظ نقل ہوئے ہیں: «وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ» حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضور  نے فرمایا: «کِتَابُ اللّٰہِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ»: ’’اللہ کی کتاب (کو تھامے رکھنا)‘ یہی وہ مضبوط رسّی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے‘‘۔  ایک اور حدیث میں فرمایا: «اَبْشِرُوْا اَبْشِرُوْا … فَاِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ سَبَبٌ طَرْفُـہ بِیَدِ اللّٰہِ وَطَرْفُہ بِاَیْدِیْـکُمْ»: ’’خوش ہو جاؤ‘ خوشیاں مناؤ… یہ قرآن ایک واسطہ ہے‘ جس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایک ِسرا تمہارے ہاتھ میں ہے‘‘۔  چنانچہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ بھی قرآن ہے ‘ اور مسلمانوں کو آپس میں جوڑ کر رکھنے کا ذریعہ بھی قرآن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دعوت و تحریک کا منبع و سرچشمہ اور مبنی و مدار قرآن ہے۔ اس کا عنوان ہی ’’دعوت رجوع الی القرآن‘‘ ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی الحمد للہ اسی کام میں کھپائی ہے  اور اسی کے ذریعہ سے انجمن ہائے خدام القرآن اور قرآن اکیڈمیز کا سلسلہ قائم ہوا۔ ان اکیڈمیز میں ’’ایک سالہ رجوع الی القرآن کورس‘‘ برسہا برس سے جاری ہے ۔ اس کورس میں جدید تعلیم یافتہ لوگ داخلہ لیتے ہیں‘ جو ایم اے، ایم ایس سی ہوتے ہیں‘ بعض پی ایچ ڈی کرچکے ہوتے ہیں‘ ڈاکٹر اور انجینئر بھی آتے ہیں۔ وہ ایک سال لگا کر عربی سیکھتے ہیں تاکہ قرآن کو سمجھ سکیں۔ ظاہر ہے جب قرآن مجید کے ساتھ آپ کی وابستگی ہو گی تو پھر آپ دین کے اس رُخ پر آگے چلیں گے۔ تو یہ دوسرا نکتہ ہوا کہ اللہ کی رسی کو مل جل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔

             وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً: ’’اور ذرا یاد کرو اللہ کا جو انعام تم پر ہوا جبکہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے‘‘

             فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ:  ’’تو اللہ نے تمہارے دلوں کے اندر اُلفت پیدا کر دی‘‘

             فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہ اِخْوَانًا:  ’’پس تم اللہ کے فضل و کرم سے بھائی بھائی بن گئے۔‘‘

            یہاں اوّلین مخاطب انصار ہیں۔ ان کے جو دو قبیلے تھے اوس اور خزرج وہ آپس میں لڑتے آ رہے تھے۔  سو برس سے خاندانی دشمنیاں چلی آ رہی تھیں اور قتل کے بعد قتل کا سلسلہ جاری تھا۔ لیکن جب ایمان آ گیا‘ اسلام آ گیا‘ اللہ کی کتاب آ گئی‘ محمد رسول اللہ  آ گئے تو اب وہ شیر و شکر ہو گئے‘ ان کے جھگڑے ختم ہو گئے۔ اسی طرح پورے عرب کے اندر غارت گری ہوتی تھی ‘ لیکن اب اللہ نے اسے دارالامن بنا دیا۔

             وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ:  ’’اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے ‘‘ (بس اس میں گرنے ہی والے تھے )

             فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا:  ’’تو اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔‘‘

             کَذٰلِکَ یُـبَـیِّنُ اللّٰہُ لَـکُمْ اٰیٰتِہ لَـعَلَّـکُمْ تَہْتَدُوْنَ:  ’’اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات واضح کررہا ہے تاکہ تم راہ پاؤ (اور صحیح راہ پر قائم رہو)۔‘‘

            اُمت مسلمہ کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل کے یہ دونکتے بیان ہو گئے۔ سب سے پہلے افراد کے کردار کی تعمیر‘ انہیں تقویٰ اور فرمانبرداری جیسے اوصاف سے متصف کرنا  ---- اور پھر ان کو ایک جمعیت‘ تنظیم یا جماعت کی صورت میں منظم کرنا‘ اور اس تنظیم کا معنوی محور قرآن مجید ہونا چاہیے‘ جو حبل اللہ ہے۔ بقول علامہ اقبال : عاعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست! اس کو مضبوطی سے تھامو کہ یہ حبل اللہ ہے!اس جماعت سازی کا فطری طریقہ بھی ہم اسی سورت کی آیت ۵۲ کے ذیل میں پڑھ چکے ہیں کہ کوئی اللہ کا بندہ داعی بن کر کھڑا ہو اور  مَنْ اَنْصَارِیْ  اِلَی اللّٰہِ  کی آواز لگائے کہ میں تواس راستے پر چل رہا ہوں‘ اب کون ہے جو میرے ساتھ اس راستے پر آتا ہے اور اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنتا ہے؟ 

UP
X
<>