May 5, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 13

قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاء إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لأُوْلِي الأَبْصَارِ

تمہارے لئے ان دو گروہوں (کے واقعے) میں بڑی نشانی ہے جو ایک دوسرے سے ٹکرائے تھے ۔ ان میں سے ایک گروہ اﷲ کے راستے میں لڑرہا تھا، اور دوسرا کافروں کا گروہ تا جو اپنے آپ کو کھلی آنکھوں ان سے کئی گنا زیادہ دیکھ رہا تھا ۔ اور اﷲ جس کی چاہتا ہے اپنی مدد سے تائید کرتا ہے ۔ بیشک اس واقعے میں آنکھوں والوں کیلئے عبرت کا بڑا سامان ہے

 آیت 13:   قَدْ کَانَ لَــکُمْ اٰیَۃٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْـتَقَتَا:  «تمہارے لیے ایک نشانی آ چکی ہے ان دو گروہوں میں جنہوں نے آپس میں جنگ کی۔»

      یعنی بدر کی جنگ میں ایک طرف مسلمان تھے اور دوسری طرف مشرکین مکہ تھے۔ اس میں تمہارے لیے نشانی موجود ہے۔

     فِئَۃٌ تُـقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ:  «ایک گروہ اللہ کی راہ میں جنگ کر رہا تھا اور دوسرا کافر تھا»

      یَّرَوْنَہُمْ مِّثْلَیْہِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ:  «وہ انہیں دیکھ رہے تھے اپنی آنکھوں سے کہ ان سے دوگنے ہیں۔»

     اس کے کئی معانی کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کو تو کھلم کھلا نظر آ رہا تھا کہ ہمارے مقابل ہم سے دوگنی فوج ہے‘ جبکہ وہ تگنی تھی۔ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اللہ تعالی نے غزوئہ بدر میں کفار پر ایسا رعب طاری کر دیا تھا کہ انہیں نظر آ رہا تھا کہ مسلمان ہم سے دُگنے ہیں۔

     وَاللّٰہُ یُـؤَیِّدُ بِنَصْرِہ مَنْ یَّشَآءُ:  «اور اللہ تعالیٰ تائید فرماتا ہے اپنی نصرت سے جس کی چاہتا ہے۔»

      اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ:  «اس میں یقینا ایک عبرت ہے آنکھیں رکھنے والوں کے لیے۔»

      یہ عبرت اور سبق آموزی صرف ان کے لیے ہوتی ہے جو آنکھیں رکھتے ہوں‘ جن کے اندر دیکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔

      اگلی آیت فطرتِ انسانی کے اعتبار سے بڑی اہم ہے۔ بعض لوگوں میں خاص طور پر دنیا اور علائق دُنیوی کی محبت زیادہ شدید ہوتی ہے۔ یہاں اس کا اصل سبب بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے واقعتا یہ شے فطرتِ انسانی میں رکھی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو قیامت تک آباد رکھنا ہے اور اس کی رونقیں بحال رکھنی ہیں۔ چنانچہ مرد اور عورت کی ایک دوسرے کے لیے کشش ہو گی تو اولاد پیدا ہو گی اور دنیا کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہے گا اور اس طرح  دنیا قائم رہے گی۔ دولت کی کوئی طلب ہو گی تو آدمی محنت و مشقت کرے گا اور دولت کمائے گا۔ اس لیے یہ چیزیں فطرتِ انسانی میںbasic animal instincts کے طور پر رکھ دی گئی ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان جبلی تقاضوں کو دبا کر رکھا جائے‘ اللہ کی محبت اور اللہ کی شریعت کو اس سے بالا تر رکھا جائے۔ یہ مطلوب نہیں ہے کہ ان کو ختم کر دیا جائے ۔ تعذیبِ نفس اور نفس کشی (self annihilation) اسلام میں نہیں ہے۔ یہ تو رہبانیت ہے کہ اپنے نفس کو کچل دو‘ ختم کر دو۔ جبکہ اسلام تزکیۂ نفس اور (self control) کا درس دیتا ہے کہ اپنے آپ کو قابو میں رکھو۔ نفسِ انسانی ایک منہ زور گھوڑا ہے۔ گھوڑا جتنا طاقت ور ہوتا ہے اتنا ہی سوار کے لیے تیز دوڑنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن منہ زور اور طاقتور گھوڑے کو قابو میں رکھنے کی ضرورت بھی ہے۔ ورنہ سوار اگر اس کے رحم و کرم پر آ  گیا تو وہ جہاں چاہے گا اسے پٹخنی دے دے گا۔ 

UP
X
<>