May 5, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 14

 زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاء وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ 

لوگوں کیلئے ان چیزوں کی محبت خوشنما بنادی گئی ہے جو ان کی نفسانی خواہش کے مطابق ہوتی ہیں، یعنی عورتیں، بچے، سونے چاندی کے لگے ہوئے ڈھیر، نشان لگائے ہوئے گھوڑے، چوپائے اور کھیتیاں ۔ یہ سب دنیوی زندگی کا سامان ہے (لیکن) ابدی انجام کا حسن تو صرف اﷲ کے پاس ہے

 آیت 14:     زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ:  «مزین کر دی گئی ہے لوگوں کے لیے مرغوباتِ دنیا کی محبت جیسے عورتیں اور بیٹے»    ُ   ّ

     مرغوباتِ دنیا میں سے پہلی محبت عورتوں کی گنوائی گئی ہے۔ فرائیڈ کے نزدیک بھی انسانی محرکات میں سب سے قوی اور زبردست محرک (potent motive) جنسی جذبہ ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ نے بھی سب سے پہلے اُسی کا ذکر کیا ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں کے لیے پیٹ کا مسئلہ فوقیت اختیار کر جاتا ہے اور معاشی ضرورت جنسی جذبے سے بھی شدید تر ہو جاتی ہے‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مرد و عورت کے مابین کشش انسانی فطرت کا لازمہ ہے۔ چنانچہ رسول اللہ  نے بھی فرمایا ہے :

((مَا تَرَکْتُ بَعْدِیْ فِتْنَۃً اَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ) )

«میں نے اپنے بعد مَردوں کے لیے عورتوں کے فتنے سے زیادہ ضرر رساں فتنہ اور کوئی نہیں چھوڑا۔»

     ان کی محبت انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے ۔ بلعام بن باعورہ یہود میں سے ایک بہت بڑا عالم اور فاضل شخص تھا‘ مگر ایک عورت کے چکر میں آ کر وہ شیطان کا پیرو بن گیا۔ اس کا قصہ سورۃ الاعراف میں بیان ہوا ہے۔ بہرحال عورتوں کی محبت انسانی فطرت کے اندر رکھ دی گئی ہے۔ پھر انسان کو بیٹے بہت پسند ہیں کہ اس کی نسل اور اس کا نام چلتا رہے ‘ وہ بڑھاپے کا سہارا بنیں۔

    وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَـرَۃِ مِـنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ: «اور جمع کیے ہوئے خزانے سونے کے اور چاندی کے»

     وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ:  «اور نشان زدہ گھوڑے»

     عمدہ نسل کے گھوڑے جنہیں ُچن کر ان پر نشان لگائے جاتے ہیں۔

      وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ:  «اور مال مویشی اور کھیتی۔»

      پنجاب اور سرائیکی علاقہ میں چوپاؤں کو مال کہا جاتا ہے۔ یہ جانور ان کے مالکوں کے لیے مال کی حیثیت رکھتے ہیں۔

      ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا:  «یہ سب دُنیوی زندگی کا سر وسامان ہے۔»

     بس نقطۂ اعتدال یہ ہے کہ جان لو یہ ساری چیزیں اس دنیا کی چند روزہ زندگی کا سازوسامان ہیں۔ اس زندگی کے لیے ضروریات کی حد تک ان سے فائدہ اٹھانا کوئی ُبری بات نہیں ہے۔

     وَاللّٰہُ عِنْدَہ حُسْنُ الْمَاٰبِ:  «لیکن اللہ کے پاس ہے اچھا لوٹنا۔»

     وہ جو اللہ کے پاس ہے اس کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر ایمان بالآخرت موجود ہے تو پھر انسان ان تمام مرغوبات کو‘ اپنے تمام جذبات اور میلانات کو ایک حد کے اندر رکھے گا‘ اس سے آگے نہیں بڑھنے دے گا۔ لیکن اگر ان میں سے کسی ایک شے کی محبت بھی اتنی زور دار ہو گئی کہ آپ کے دل کے اوپر اس کا قبضہ ہو گیا تو بس آپ اس کے غلام ہو گئے‘ اب وہی آپ کا معبود ہے‘ چاہے وہ دولت ہو یا کوئی اور شے ہو۔ 

UP
X
<>