May 18, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 198

 لَكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْاْ رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نُزُلاً مِّنْ عِندِ اللَّهِ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ لِّلأَبْرَارِ 

لیکن جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہوئے عمل کرتے ہیں، ان کیلئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اﷲ کی طرف سے میزبانی کے طور پر وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے ۔ اور جو کچھ اﷲ کے پاس ہے وہ نیک لوگوں کیلئے کہیں بہتر ہے

آیت 198:    لٰــکِنِ الَّذِیْنَ اتَّـقَوْا رَبَّہُمْ:  ’’اس کے برعکس جن لوگوں نے اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کیا‘‘

              لَـہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰـرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا:  ’’ان کے لیے باغات ہیں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی‘ جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے‘‘

             نُـزُلاً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ:  ’’یہ ان کے لیے ابتدائی مہمان نوازی ہو گی اللہ کی طرف سے۔‘‘

             وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّــلْاَبْرَارِ:  ’’اور مزید جو اللہ کے پاس ہے وہ کہیں بہتر ہے نیکوکاروں کے لیے۔‘‘

            جنت کی اصل نعمتیں تو بیان میں آ ہی نہیں سکتیں۔ ان کے بارے میں حضرت ابوہریرہ سے مروی یہ متفق علیہ حدیث یاد رکھیں کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا:

«قَالَ اللّٰہُ تَـبَارَکَ وَتَعَالٰی : اَعْدَدْتُ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ»

’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے (جنت میں) وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ تو کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا‘ اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا خیال ہی گزرا۔‘‘

            قرآن و حدیث میں جنت کی جن نعمتوں کاتذکرہ ہے ان کی حیثیت اہل جنت کے لیے نُزُل (ابتدائی مہمان نوازی) کی ہو گی۔

UP
X
<>