May 2, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 24

ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَــسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ وَغَرَّھُمْ فِيْ دِيْــنِهِمْ مََّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ

یہ اس واسطے کہ کہتے ہیں وہ ہم کو ہرگز نہ لگے گی آگ دوزخ کی مگر چند دن گنتی کے، اور بہکے ہیں اپنے دین میں اپنی بنائی باتوں پر

 آیت 24:    ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ:  «یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو جہنم کی آگ چھو ہی نہیں سکتی مگر گنتی کے چند دن۔»

            یہ مضمون سورۃ البقرۃ میں آ چکا ہے۔ ان کی ڈھٹائی کا اصل سبب ان کے من گھڑت خیالات ہیں۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم کتاب پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر عمل کیوں نہیں کر رہے؟ اس میں تو لکھا ہے کہ سود حرام ہے اور تم سود خوری پر کمر بستہ ہو‘ اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام کیوں نہیں جانتے؟ تو اس کے جواب میں وہ اپنا یہ من گھڑت عقیدہ بیان کرتے ہیں کہ «ہمیں تو جہنم کی آگ چھو ہی نہیں سکتی مگر گنتی کے چند دن»۔ جب یہ عقیدہ ہے تو پھر انسان کاہے کو دنیا کا نقصان برداشت کرے، ع:  بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ پھر تو حلال سے‘ حرام سے‘ جائز سے‘ نا جائز سے‘ جیسے بھی عیش دنیا حاصل کیا جا سکتا ہو حاصل کرنا چاہیے۔ یہ عقیدہ در حقیقت ایمان بالآخرت کی نفی کر دیتا ہے۔

             وَغَرَّہُمْ فِیْ دِیْنِہِمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ:  «اور انہیں دھوکے میں مبتلا کر دیا ہے ان کے دین کے بارے میں ان چیزوں نے جو یہ گھڑتے رہے ہیں۔»

            اس طرح کے جو عقائد ونظریات انہوں نے گھڑ لیے ہیں ان کے باعث یہ دین کے معاملے میں گمراہی کا شکار ہو گئے ہیں۔ اللہ  نے تو ایسی کوئی ضمانت نہیں دی تھی۔ تورات لاؤ‘ انجیل لاؤ‘ کہیں ایسی ضمانت نہیں ہے۔ یہ تو تمہارا من َگھڑت عقیدہ ہے اور اسی کی وجہ سے اب تم دین کے اندر بد دین یا بے دین ہو گئے ہو۔ 

UP
X
<>