May 2, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 28

 لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ 

مومن لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا یارو مددگار نہ بنائیں ۔ اور جو ایساکرے گا اس کا اﷲ سے کوئی تعلق نہیں، اِلا یہ کہ تم ان (کے ظلم) سے بچنے کیلئے بچاؤ کا کوئی طریقہ اختیار کرو۔ اور اﷲ تمہیں اپنے (عذاب) سے بچاتاہے ۔ اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے

 آیت 28:    لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَـآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ:  «اہل ایمان نہ بنائیں کافروں کو اپنے دوست اہل ایمان کو چھوڑ کر۔»

            «اولیاءَ» ایسے قلبی دوست ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے رازدار بھی بن جائیں اور ایک دوسرے کے پشت پناہ بھی ہوں۔ یہ تعلق کفار کے ساتھ اختیار کر نے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کے ساتھ اچھا رویہ‘ ظاہری مدارات اور تہذیب و شائستگی سے بات چیت تواور بات ہے‘ لیکن دلی محبت‘ قلبی رشتہ‘ جذباتی تعلق‘ باہمی نصرت و تعاون اور ایک دوسرے کے پشت پناہ ہونے کا رشتہ قائم کر لینے کی اجازت نہیں ہے۔ کفار کے ساتھ اس طرح کے تعلقات اللہ تعالی کو  ہرگز پسند نہیں ہیں۔

             وَمَنْ یَّـفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَيْءٍ:  «اور جو کوئی بھی یہ حرکت کرے گا تو پھر اللہ کے ساتھ اس کاکوئی تعلق نہیں رہے گا»

            اگر اللہ کے دشمنوں کے ساتھ تمہاری دوستی ہے تو ظاہر ہے پھر تمہارا اللہ کے ساتھ کوئی رشتہ و تعلق نہیں رہا ہے ۔

             اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰٹۃً: «سوائے یہ کہ تم ان سے بچنے کے لیے اپنا بچاؤ کرنا چاہو۔»

            بعض اوقات ایسے حالات ہوتے ہیں کہ کھلے مقابلے کا ابھی موقع نہیں ہوتا تو آپ دشمن کو طرح دیتے ہیں اور اس طرح گویا وقت حاصل کرتے ہیں (you are buying time)  تو اس دوران اگر ظاہری خاطر مدارات کا معاملہ بھی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے‘ لیکن مستقل طور پر کفار سے قلبی محبت قائم کر لینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ قرآن کے انہی الفاظ کو ہمارے ہاں اہل تشیع نے تقیہ کی بنیاد بنا لیا ہے۔ لیکن انہوں نے اسے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ جھوٹ بولنا اور اپنے عقائد کو چھپا لینا بھی روا سمجھتے ہیں اور اس کے لیے دلیل یہاں سے لاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک بالکل دوسری شکل ہے اور یہ صرف ظاہری مدارات کی حد تک ہے۔ جیسے کہ ہم سورۃ البقرۃ میں پڑھ چکے ہیں کہ اگرچہ تمہارے خلاف یہود کے دلوں میں حسد کی آگ بھری ہوئی ہے لیکن  فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا:  (آیت: 109)  ابھی ذرا درگزر کرتے رہو اور چشم پوشی سے کام لو۔ ابھی فوری طور پران کے ساتھ مقابلہ شروع کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس حد تک مصلحت بینی تو صحیح ہے‘ لیکن یہ نہیں کہ جھوٹ بولا جائے‘ معاذ اللہ!

             وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہ:  «اور اللہ تمہیں ڈراتا ہے اپنے آپ سے۔»

            اللہ سے ڈرو۔ یعنی کسی اور سے خواہ مخواہ ڈر کر صرف خاطر مدارات کر لینا بھی صحیح نہیں ہے۔ کسی وقت مصلحت کا تقاضا ہو تو ایسا کر لو‘ لیکن تمہارے دل میں خوف صرف اللہ کا رہنا چاہیے۔

              وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ:  «اور اللہ ہی کی طرف (تمہیں)  لوٹ کر جانا ہے۔» 

UP
X
<>