May 17, 2024

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 54

وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ

اور ان کافروں نے (عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف) خفیہ تدبیر کی، اور اﷲ نے بھی خفیہ تدبیر کی ۔ اور اﷲ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے

آیت 54:    وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ:  «اب انہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی۔»

            یہود کے علماء اور فریسی حضرت مسیح کے خلاف مختلف چالیں چل رہے تھے کہ کسی طرح یہ قانون کی گرفت میں آ جائیں اور ان کا کام تمام کر دیا جائے۔ ان لوگوں نے آنجناب کو مرتد اور واجب القتل قرار دے دیا تھا‘ لیکن ملک پر سیاسی اقتدار چونکہ رومیوں کا تھا لہٰذا رومی گورنر کی توثیق  (sanction) کے بغیر کسی کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی تھی۔ ملک کا بادشاہ اگرچہ ایک یہودی تھا لیکن اس کی حیثیت کٹھ پتلی بادشاہ کی تھی‘ جیسے انگریزی حکومت کے تحت مصر کے شاہ فاروق ہوتے تھے۔ یہود کی مذہبی عدالتیں موجود تھیں جہاں ان کے علماء‘ مفتی اور فریسی بیٹھ کر فیصلے کرتے تھے‘ اور اگر وہ سزائے موت کا فیصلہ دے دیتے تھے تو اس فیصلے کی تنفیذ‘ (execution) رومی گورنر کے ذریعے ہوتی تھی۔ اس صورت حال میں علماء یہود کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ حضرت مسیح کو رومی قانون کی زد میں لانے کے لیے اپنی سی چالیں چل رہے تھے۔ وہ آنجناب سے اس طرح کے الٹے سیدھے سوالات کرتے کہ آپ کے جوابات سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ شخص رومی حکومت کا باغی ہے۔

            یہود کی ان چالوں کا توڑ کرنے کے لیے اللہ نے اپنی چال چلی۔ اب اللہ کی چال کیا تھی؟ اس کی تفصیل قرآن یا حدیث میں نہیں ہے‘ بلکہ «انجیل برنباس» میں ہے جو پوپ کی لائبریری سے برآمد ہوئی تھی۔ حضرت مسیح کے حواریوں میں سے ایک حواری یہودا کو یہود نے رشوت دے کر اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ وہ آپ کی مخبری کر کے گرفتار کرائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی غدار حواری کی شکل حضرت مسیح کی سی بدل دی اور وہ خود گرفتار ہو کر سولی چڑھ گیا۔ حضرت مسیح پر وہ ہاتھ ڈال ہی نہیں سکے۔ حضرت مسیح ایک باغ میں روپوش تھے اور باغ کے اندر بنی ہوئی ایک کوٹھڑی میں رات کے وقت عبادت میں مشغول تھے‘ جبکہ آپ کے بارہ حواری باہر موجود تھے۔ اُس وقت وہ شخص وہاں سے چپکے سے سٹک گیا اور جا کر سپاہیوں کو لے آیا تاکہ آپ کو گرفتار کرا سکے۔ یہ رومی سپاہی تھے اور قندیلیں لے کر آئے تھے ۔ اُس نے سپاہیوں سے کہا تھا کہ میں اندر جاؤں گا‘ جس شخص کو میں کہوں «اے ہمارے استاد» بس اسی کو پکڑ لینا‘ وہی مسیح ہیں۔ اس لیے کہ رومیوں کو کیا پتا تھا کہ مسیح کون ہیں؟ یہ شخص جیسے ہی کوٹھڑی کے اندر داخل ہوا اُسی وقت کوٹھڑی کی چھت پھٹی اور چار فرشتے نازل ہوئے‘ جو حضرت مسیح کو لے کر چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی شکل تبدیل کر دی اور حضرت مسیح والی شکل بنا دی۔ اب یہ گھبرا کر باہر نکلا تو دوسرے حواریوں نے اُس سے کہا «اے ہمارے استاد!» یہ سنتے ہی سپاہیوں نے اسے قابو کر لیا اور اصل میں یہی شخص سولی چڑھا ہے‘ نہ کہ حضرت مسیح ۔ یہ ساری تفاصیل انجیل برنباس میں موجود ہیں ۔ یہ شہادت در حقیقت نصاریٰ ہی کے گھر سے ہمیں ملی ہے اور قرآن کا جو بیان ہے اس میں یہ پوری طرح فٹ بیٹھتی ہے کہ «انہوں نے اپنی سی چالیں چلیں اور اللہ نے اپنی چال چلی»۔

             وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ:  «اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔» 

UP
X
<>