April 27, 2024

قرآن کریم > الروم >sorah 30 ayat 32

مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ

وہ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر لیا، اور مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ ہر گروہ اپنے اپنے طریقے پر مگن ہے

آیت ۳۲   مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا: ’’ (یعنی) ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور وہ مختلف گروہ بن گئے۔‘‘

      فَرَقَ کے معنی جدا کرنا اور پھاڑ دینا کے ہیں، جبکہ فَرَّقَ میں اس بنیادی معنی پر مستزاد کسی چیز کو کاٹ دینا، توڑ دینا اور ٹکڑ ے ٹکڑے کر دینا کا مفہوم بھی شامل ہو جاتا ہے۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہوا: (وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰـکُمْ وَاَغْرَقْنَا اٰلَ فِرْعَوْنَ) (آیت: ۵۰) ’’اور یاد کرو جب کہ ہم نے تمہاری خاطر سمندر کو پھاڑ دیا پھر تمہیں بچا لیا اور فرعونیوں کو غرق کر دیا‘‘۔ اس طرح فِرق یا فرقہ کے معنی کسی چیز کا کٹا ہوا حصہ یا ٹکڑا کے ہیں۔ جیسا کہ سورۃ الشعراء کی اس آیت میں ہے: (فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْم) ’’ تو وہ (سمندر) پھٹ گیا، پھر ہو گیا ہر ٹکڑا ایک بہت بڑے پہاڑ کی مانند۔‘‘

      اس اعتبار سے دین کو پھاڑنے اور ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ دین کے نام لیواؤں نے اپنی اطاعت کو اس طرح منتشر کر دیا کہ زندگی کے ایک حصے میں تو اللہ کی اطاعت کر تے رہے، جبکہ کسی دوسرے معاملے میں کسی اور کی بات مانتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا نظام زندگی منتشر ہو کر رہ گیا۔ اس سلسلے میں اللہ کا حکم بہت واضح ہے: (وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ) (الاعرا ف: ۲۹) ’’ اور اُسی کو پکارو دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے‘‘۔ یعنی اللہ کی اطاعت کے متوازی کسی دوسرے کی اطاعت قابل قبول نہیں کہ کچھ احکام اللہ کے مان لیے جائیں اور کچھ میں کسی دوسرے کی پیروی کی جائے۔ ہاں اللہ کی اطاعت کے تابع رہ کر کسی اور کی اطاعت میں کوئی حرج نہیں ۔ مثلاً والدین کی اطاعت کرنا، اساتذہ کا کہنا ماننا اور ُحکام کا فرمانبردار بن کر رہنا ضروری ہے، مگر اُس وقت تک جب تک کہ ان میں سے کوئی اللہ کی معصیت کا حکم نہ دے۔ اس سلسلے میں نبی مکرم نے بہت واضح اصول بیان فرما دیا ہے: ((لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ))   یعنی مخلوق کی ایسی اطاعت نہیں کی جائے گی جس سے خالق کی نافرمانی ہوتی ہو۔

        کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ: ’’ہر گروہ اسی پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے۔‘‘

      ایک گروہ دین کے ایک حصے پر عمل کر رہا ہے، دوسرے گروہ نے اپنی پسند کے کچھ اور احکام کو اپنی پیروی کے لیے منتخب کر لیا ہے اور تیسرے نے کوئی اور راستہ نکال لیا ہے۔ غرض مختلف گروہوں نے دین کے مختلف حصوں کو آپس میں بانٹ لیا ہے اور ہر گروہ اپنے طریقے میں مگن ہے اور اس پر اِترا رہا ہے، حالانکہ ان میں سے کوئی گروہ بھی پورے دین پر عمل پیرا نہیں ہے۔

UP
X
<>