April 26, 2024

قرآن کریم > لقمان >sorah 31 ayat 12

وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ

اور ہم نے لقمان کو دانائی عطا کی تھی، (اور اُن سے کہا تھا) کہ اﷲ کا شکر کرتے رہو۔ اور جو کوئی اﷲ کا شکر اَدا کرتا ہے، وہ خود اپنے فائدے کیلئے شکر کرتا ہے، اور اگر کوئی نا شکری کرے تو اﷲ بڑا بے نیا ز ہے، بذاتِ خود قابلِ تعریف !

      سورۂ لقمان کا یہ رکوع اپنے مضامین کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اسے ہم نے مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب میں بھی شامل کیا ہے۔ چنانچہ منتخب نصاب کے پہلے حصے (جامع اسباق) کا تیسرا درس اس رکوع پر مشتمل ہے۔

      بنیادی طور پر اس رکوع میں حضرت لقمان کی نصیحتیں نقل ہوئی ہیں ۔ ان نصیحتوں میں اس قدر جامعیت ہے کہ انسان کی نجاتِ اُخروی کے لوازمات کا ایک مکمل خاکہ ان کے اندر موجود ہے۔ حضرت لقمان نہ تو خود نبی تھے اور نہ ہی کسی نبی کے پیروکار تھے، بلکہ وہ ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان تھے۔ ان کے حوالے سے جو بہت اہم نکتہ یہاں پر واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے (اس دورئہ ترجمہ قرآن کے دوران قبل ازیں بھی یہ نکتہ بار بارزیر بحث آچکا ہے) کہ ہر انسان فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے اور اگر ماحول کے منفی اثرات کے باعث اس کی فطرت مسنح نہ ہو گئی ہو تو وحی یا کسی نبی کی راہنمائی کے بغیر بھی کائنات کے کچھ حقائق تک اُس کی رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔ وہ اپنی عقل سلیم کے ذریعے بڑی آسانی سے اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ اس پوری کائنات کا خالق ایک ہے، اس کی تخلیق میں اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں ۔ وہ ایسی ہستی ہے جو تمام صفاتِ کمال سے بتمام و کمال متصف ّہے۔ اُسی نے اس کائنات کی تدبیر کی ہے اور وہی اس کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔

      اسی طرح ایک سلیم الفطرت انسان عقلی طور پر یہ حقیقت بھی سمجھ سکتا ہے کہ انسان کی زندگی صرف اس دنیا کی زندگی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی کا ہونا بھی ناگزیر ہے۔اور یہ کہ جس خالق نے انسانوں کو پیدا کیا ہے وہ ان کا محاسبہ بھی کرے گا۔ ہر انسان کو اپنے کیے کی سزا یا جزا کے لیے اپنے خالق کے حضور ضرور حاضر ہونا پڑے گا۔ ان حقائق کے ادراک کو ’’ایمان‘‘ تو نہیں کہا جا سکتا، لیکن معرفت یا حکمت کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ ’’ایمان‘‘ تو نبی کی دعوت کی تصدیق کا نام ہے، جس تک انسان خود بخود رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ البتہ معرفت اور حکمت کے یہ دو مقامات (وجودِ باری تعالیٰ کا ادراک اور آخرت کا شعور) ایسے ہیں جن تک انسان اپنی عقل سلیم کی مدد سے بھی پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ اس کی فطرت پر غفلت اور مادیت کے پردے نہ پڑ چکے ہوں ۔

      ایک سلیم الفطرت انسان کو اس مقامِ معرفت پر پہنچ کر آگے بڑھنے کے لیے کسی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی اب تک اُس نے عقل کی مدد سے اپنے خالق کو پہچان تو لیا ہے لیکن اس کے خالق کا اس سے تقاضا کیا ہے اس بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ چنانچہ یہاں پہنچ کر وہ مدد کے لیے پکارتا ہے۔ انسان کی فطرتِ سلیمہ کی اس پکار کو اللہ تعالیٰ نے الفاظ کا جامہ عطا کر کے ایک خوبصورت دعا کی صورت میں محفوظ فرما دیا ہے۔ یہ وہی دعا ہے جو ہم ہر نماز کی ہر رکعت کے اندر پڑھتے ہیں ۔ لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک عام آدمی کی دعا نہیں ہے بلکہ یہ اُس انسان کی فطرت کی پکار ہے جواپنی سلامتی ٔطبع، سلامتی ٔفطرت اور سلامتی ٔعقل کی مدد سے اللہ کی معرفت حاصل کر چکا ہے۔ اس معرفت کے بعد اس کی روح گویا بے اختیار پکار اٹھتی ہے : (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ) یعنی اُس نے اللہ کو خالق کائنات اور ربّ العالمین کے طور پر پہچان لیا ہے۔ وہ اللہ کو (الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) ہستی کے طور پر بھی جان چکا ہے۔ اس کے بعد وہ (مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ) کی منطق کا قائل بھی ہو چکا ہے اور اپنی عقل سلیم ہی کی مدد سے اسے (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ) کا فلسفہ بھی سمجھ میں آچکا ہے۔ لیکن اس سے آگے وہ کچھ نہیں جانتا۔ اسے اس حقیقت کا ادراک تو ہو گیا ہے کہ اسے اپنے رب ہی کی بندگی کرنا چاہیے اور اسی کی مرضی پر چلنا چاہیے، مگر اس کی بندگی کا طریقہ کیا ہے؟ اور اس کی مرضی ہے کیا؟ اس بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں ۔ چنانچہ یہاں وہ اُسی ذات کی طرف رجوع کرتا ہے جس کی معرفت سے اس کا سینہ منور ہوا ہے اور اُس سے راہنمائی کی درخواست کرتا ہے: (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ  غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ) ’’(اے ہمارے ربّ!) ہمیں ہدایت بخش سیدھی راہ کی۔ راہ اُن لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا، جو نہ تو مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ۔‘‘

    حضرت لقمان ایک ایسی ہی سلیم الفطرت شخصیت تھے جو وحی یا کسی نبی کی راہنمائی کے بغیر کائنات کے مذکورہ حقائق تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ وہ حبشی ٔالنسل تھے اور پیشے کے اعتبار سے بڑھئی تھے۔ ان کا تعلق مصر اور سوڈان کے سرحدی علاقے نوبیا (Noobia) سے تھا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حکمت و ذہانت اور سلامتی فطرت کی مدد سے نہ صرف انہیں توحید کی معرفت حاصل ہوئی بلکہ وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ گئے کہ انسانی اعمال ضائع ہونے کی چیز نہیں ہیں ۔ اس رکوع میں حضرت لقمان کی ان نصیحتوں کا ذکر ہے جو انہوں نے انتقال کے وقت اپنے بیٹے کو کی تھیں ۔ گویا یہ باتیں ان کی عمر بھر کی سوچ کا ُلب ّلباب ہیں ۔ چونکہ وہ کسی نبی کے پیروکار نہیں تھے اور نہ ہی وحی کی تعلیمات ان تک پہنچی تھیں اس لیے ان کی نصیحتوں میں نہ تو کسی رسول کا تذکرہ ہے اور نہ ہی ان حقائق کا ذکر ہے جن کا علم صرف وحی کے ذریعے سے ہی حاصل ہوتاہے۔

       عرب کے لوگ حضرت لقمان کی شخصیت سے خوب واقف تھے۔ وہ نہ صرف انہیں ایک دانشور حکیم کے طور پر جانتے تھے بلکہ ان کے اقوال کو اپنے اشعار اور خطبات میں نقل (quote) بھی کیا کرتے تھے۔ اس پس منظر میں حضرت لقمان کے اقوال و نصائح کو قرآن میں نقل (quote) کر کے اللہ تعالیٰ گویا مشرکین عرب کو بتانا چاہتا ہے کہ دیکھو! لقمان جیسا دانشور حکیم بھی اپنی سلامتی طبع اور سلامتی فکر کے باعث اسی اصول اور اسی نکتے تک پہنچا تھا جس کی دعوت آج تم لوگوں کو محمد دے رہے ہیں ۔

آیت ۱۲   وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ: ’’اور ہم نے لقمان کو دانائی عطا کی تھی‘‘

 

        اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ: ’’کہ اللہ کا شکر ادا کرو!‘‘

 

      انسان کی حکمت و دانائی اور اس کی فطرت کے ’’سلیم‘‘ ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ جو کوئی بھی اس کے ساتھ بھلائی کرے اُس کے لیے اس کے دل میں بھلائی اور احسان مندی کے جذبات پیدا ہوں اور پھر وہ مناسب طریقے سے ان جذبات کا اظہار بھی کرے۔ چنانچہ اگر کسی شخص کی فطرت بالکل ہی مسخ نہ ہوچکی ہو تو وہ اپنے محسن ِاعظم اور ُمنعم حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور ہر لمحہ اور ہر مقام پر ضرور کلمہ شکر بجا لائے گا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ اللہ کے شکر کے اظہار کے لیے بہترین کلمہ شکر ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ ہے جو قرآن مجید کا کلمہ آغاز بھی ہے۔

        وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ: ’’اور جو کوئی بھی شکر کرتا ہے تو وہ شکر کرتا ہے اپنے ہی بھلے کے لیے۔‘‘

        وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ: ’’اور جو کوئی نا شکری کرتا ہے تو اللہ بے نیاز ہے اور وہ اپنی ذات میں خود محمود ہے۔‘‘

 

UP
X
<>