April 26, 2024

قرآن کریم > لقمان >sorag 31 ayat 13

وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ

اور وہ وقت یاد کرو جب اُنہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ : ’’ میرے بیٹے ! اﷲ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ یقین جانو شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔‘‘

آیت ۱۳  وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَہُوَ یَعِظُہٗ: ’’اور جب کہا لقمان نے اپنے بیٹے سے جبکہ وہ اسے نصیحت کر رہا تھا‘‘

      یہاں سے ان نصیحتوں کا آغاز ہوتا ہے جن میں حضرت لقمان اپنے بیٹے سے مخاطب ہیں۔ اگرچہ یہاں پر اس کا ذکر نہیں کیا گیا، لیکن انہوں نے یہ نصیحتیں اپنے انتقال کے وقت کی تھیں ۔ ہر شخص فطری طور پر چاہتا ہے کہ وہ اپنی موت سے پہلے اپنی اولاد کو اپنے ورثے کے بارے میں ضروری ہدایات دے جائے۔ جیسے عام طور پر بڑے بڑے کارخانہ داراور دولت مند لوگ اپنے کاروبار، اثاثہ جات اور اور لین دین کے معاملات سے متعلق وصیت کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت لقمان جیسے حکیم انسان نے بھی ضروری سمجھا کہ اپنے عمر بھر کے غوروفکر اور دانائی کا نچوڑاور لُب لباب موت سے پہلے اپنے بیٹے کو منتقل کر دیں۔

        یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ: ’’اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا۔ یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘

      لغوی اعتبار سے لفظ ’’ظلم‘‘ کا مفہوم ناانصافی اور حق تلفی ہے۔ ’’ظلم‘‘ کی تعریف یوں کی جاتی ہے : وَضْعُ الشَّیْیٔ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ. یعنی کسی چیز کو اُس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی دوسری جگہ پر رکھ دینا۔ ظلم کی اس تعریف (definition) پر غور کریں تو یہ نکتہ بڑی آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہاں شرک کو ’’ظلم عظیم‘‘ کیوں کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کا خالق ہے اور کائنات کی ہر چیز اُس کی مخلوق ہے۔ وہ اپنی صفات میں یکتا اور تنہا ہے۔ اب اگر کوئی انسان ان صفات کے اعتبار سے مخلوق میں سے کسی کو اٹھا کر اللہ کے برابر کر دے یا اللہ تعالیٰ کو کسی اعتبار سے گرا کر مخلوق کی صف میں لا کھڑا کرے تو اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا؟

      حضرت لقمان کی اس اہم نصیحت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی طرف سے ایک نصیحت کا اضافہ کیا ہے جو والدین کے حقوق سے متعلق ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت لقمان نے کسر نفسی کے باعث خود اپنے حق سے متعلق بیٹے کو نصیحت کرنا مناسب نہ سمجھا ہو، چنانچہ اس کمی کو اللہ تعالیٰ نے پورا فرما دیا۔ اس لحاظ سے قرآن حکیم میں یہ پانچواں مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے حق توحید کے فوراً بعد والدین کے حقوق کا بیان فرمایا ہے۔ اس سے پہلے البقرۃ: ۸۳، النساء: ۳۶، الانعام: ۱۵۱، اور بنی اسرائیل: ۲۳ میں اللہ تعالیٰ کے حق کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر ہوا ہے۔

UP
X
<>