May 5, 2024

قرآن کریم > السجدة >sorah 32 ayat 21

وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

اور اُس بڑے عذاب سے پہلے بھی ہم اُنہیں کم درجے کے عذاب کا مزہ بھی ضرور چکھائیں گے، شاید یہ باز آجائیں

 آیت ۲۱   وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ: ’’اور ہم لازماً چکھائیں گے انہیں مزہ چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے پہلے، شاید کہ یہ لوگ پلٹ آئیں ۔‘‘

      اس آیت کی سورۃ الروم کی آیت: ۴۱ کے ساتھ خاص مناسبت ہے: (ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ) ’’بحر و بر میں فساد رونما ہوچکا ہے لوگوں کے اعمال کے سبب، تا کہ اللہ انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا، تا کہ وہ لوٹ آئیں ۔‘‘

      دونوں آیات کے مضمون کا تعلق دراصل اللہ تعالیٰ کے اس انتہائی اہم قانون سے ہے جس کے تحت دنیا میں لوگوں کے کرتوتوں کے سبب ان پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے جاتے ہیں ۔ اس کا مقصد انہیں خبردار کرنا ہو تا ہے کہ شاید اس طرح وہ خوابِ غفلت سے جاگ کر توبہ کی روش اپنا لیں اور بڑے عذاب سے بچ جائیں ۔ اس قانونِ الٰہی کا ذکر قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ مثلاًسورۃ الانعام میں اس سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا: (وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰـہُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ) ’’اور ہم نے بھیجا (دوسری) امتوں کی طرف بھی آپؐ سے قبل (رسولوں کو) ، پھر ہم نے پکڑا انہیں سختیوں اور تکلیفوں سے، شاید کہ وہ عاجزی کریں ‘‘۔ اسی طرح سورۃ الاعراف میں اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ اس قانون کی یوں وضاحت کی گئی : (وَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلآَّ اَخَذْنَآ اَہْلَہَا بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُوْنَ) ’’اور ہم نے نہیں بھیجا کسی بھی بستی میں کسی بھی نبی کو مگر یہ کہ ہم نے پکڑا اس کے بسنے والو ں کو سختیوں سے اور تکلیفوں سے تاکہ وہ گڑ گڑائیں (اور ان میں عاجزی پیدا ہو جائے)۔‘‘

UP
X
<>