May 5, 2024

قرآن کریم > السجدة >sorah 32 ayat 24

وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ

اور ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو، جب اُنہوں نے صبر کیا، ایسے پیشوا بنادیا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے

آیت ۲۴    وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا: ’’اور ہم نے ان میں سے ایسے امام اُٹھائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، جب کہ انہوں نے صبر کی روش اختیار کی۔‘‘

      یعنی بنی اسرائیل کے ائمہ اور پیشواؤں کو تورات کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے کے لیے صبر کی روش پر کاربند رہنا پڑتا تھا۔ اس نکتے کو یوں سمجھئے کہ کتاب اللہ کی تعلیمات کو سیکھنے اور پھر لوگوں تک پہنچانے کے لیے وقت درکار ہے جو انسانی سطح پر بذاتِ خود ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ دولت اور عیش و عشرت کے حصول کی حرص ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اگر کوئی شخص اپنا بیشتر وقت دنیا اور اس کی آسائشوں کے حصول کے لیے صرف کر دے گا تو اُس کے شب وروز میں دعوت و تبلیغ اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کے لیے وقت کہاں سے آئے گا؟ چنانچہ اگر کسی کو اللہ کے راستے میں نکلنے کے لیے کمربستہ ہونا ہے تو صبر و استقامت کا دامن تھام کر اسے لازمی طور پر دنیا کی بہت سی آسائشوں کو خیرباد کہنا ہو گا۔ اس کے علاوہ اس راستے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے بھی صبر درکار ہے۔ کتاب اللہ کی تعلیم و تبلیغ کے حوالے سے یہ دونوں فرائض گویا بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں ۔ لیکن جب بھی کوئی شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علمبردار بن کر نکلے گا تو لوگ اس کی مخالفت کریں گے، اس راہ میں اسے گالیاں بھی سننا پڑیں گی، جسمانی و ذہنی اذیتوں کا سامنا بھی کرنا ہو گا اور مال و جان کے نقصانات بھی برداشت کرنا پڑیں گے۔ بہر حال اس راستے پر جس پہلو سے بھی کوئی جدوجہد کرے گا، اسے قدم قدم پر ایسے سنگ ہائے میل سے سابقہ پڑے گا جو صبر و استقامت اور ایثار و قناعت کے رنگا رنگ مطالبات سے عبارت ہوں گے۔

      آج قرآن کی تبلیغ و ترویج کے میدان میں یہ آیت ہمارے لیے نشانِ منزل بن سکتی ہے۔ جس انداز میں یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ’’ائمہ‘‘ کی تعریف فرمائی ہے اس کے لطیف احساس سے ہمارے دلوں میں ترغیب و تشویق کے جذبات کی نئی نئی کونپلیں پھوٹنی چاہئیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بنی اسرائیل کے ان ’’ائمہ‘‘ کے کردار اور خوش نصیبی سے متعلق اپنے دلوں میں رشک پیدا کریں اور پھر اللہ سے توفیق مانگیں کہ وہ ہمیں بھی اس کام کے لیے ُچن لے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ یہ ’’رتبہ بلند‘‘ محض دعاؤں اور تمناؤں کے سہارے نہیں ملا کرتا۔ اس کے لیے ہمیں صبر و استقامت اور ایثار و قناعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر عملی کوشش کرنا ہو گی۔ اپنی بہت سی خواہشات کو قربان کرنا ہو گا، اپنے معیارِ زندگی (livingstandard) کو کم سے کم سطح پر رکھنا ہو گا اور یوں اپنے تبلیغی بھائیوں کے بقول ’’تفریغ الاوقات‘‘ (دینی جدوجہد کے لیے وقت نکالنا) کو ممکن بنانا ہو گا۔

      اس سلسلے میں ہم میں سے ہر ایک کو سنجیدہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ایک دفعہ اپنا بیشتر وقت پیسہ کمانے اور معیارِ زندگی بلند کرنے کی کوششوں میں صرف کر نے کی روش کو اپنا لیا تو یوں سمجھیں کہ ہم نے خود کو ایک کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں ڈال لیا۔ یعنی خود کو ایک نام نہاد معیارِ زندگی کے ’’سراب‘‘ کو پا لینے اور پھر اس کو برقرار رکھنے کی خواہشات کا اسیر بنا لیا۔ اگر خدانخواستہ ہم نے اپنی زندگی اسی ’’دنیاداری‘‘ میں گزار دی تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ایک خاص ’’معیار زندگی‘‘ کو اپنے معبود کا درجہ دے کر گویا ساری عمر اسی کی پوجا میں گزار دی ہے۔اس کے برعکس اگر ہم اللہ کی توفیق سے قرآن کا دامن مضبوطی سے تھام لیں ، اپنی زندگی کے لیے راہنمائی صرف اور صرف قرآن سے حاصل کرنے کا تہیہ کر لیں تو اللہ کے راستے پر چلنے کے لیے ہمارے سامنے ان شا ء اللہ اسباب کے نت نئے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ یاد رکھیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مسجودِ ملائک بنایا ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا نقطہ ٔعروج (climax) ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جب یہ عزمِ صمیم کا زادِ سفر لے کر کسی راہ پر چل پڑتا ہے تو مشکلات اس سے کنی کترا نے لگتی ہیں اور منزلیں خود آگے بڑھ کر اس کے قدم چومتی ہیں ۔

      وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ: ’’اور وہ ہماری آیات پر یقین رکھتے تھے۔‘‘

      بنی اسرائیل کے ائمہ جو کتاب کی تعلیم و تبلیغ میں مصروف تھے وہ صبر کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی آیات پر پختہ یقین بھی رکھتے تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین رکھنا، اُس کے وعدوں کو من و عن سچ ماننا اور اس پر توکل کرنا راہِ حق کی جدوجہد کی لازمی شرائط ہیں ۔

UP
X
<>