May 5, 2024

قرآن کریم > السجدة >sorah 32 ayat 23

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی، لہٰذا (اے پیغمبر !) تم اس کے ملنے کے بارے میں کسی شک میں نہ رہو، اور ہم نے اُس کتاب کو بنوا ِسرائیل کیلئے ہدایت بنایا تھا

 آیت ۲۳   وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ: ’’اور ہم نے موسیٰؑ کو بھی کتاب عطا کی تھی‘‘

      فَلَا تَکُنْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْ لِّقَآئِہٖ: ’’تو آپ کسی شک میں نہ رہیے اُس کی ملاقات سے‘‘

      یہ ایک جملہ معترضہ ہے جو یہاں سلسلہ کلام کے درمیان میں آیا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہاں حضور کی حضرت موسیٰ سے شب معراج کے موقع پر ہونے والی ملاقات کی طرف اشارہ ہے۔ اس حوالے سے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اے نبی! شب معراج میں آپ نے موسیٰ سے جو ملاقات کی تھی اس کے بارے میں آپؐ کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے، وہ یقینا موسیٰؑ ہی تھے جو آپ کو وہاں ملے تھے۔ لیکن آیت کا زیادہ قرین قیاس مفہوم جو سیاق و سباق کے ساتھ بھی مناسبت رکھتا ہے وہ یہی ہے کہ اے نبی !ہم نے موسیٰؑ کو تورات عطا کی تھی اور اس کتاب کا موسیٰؑ کو ملنا ہماری ہی طر ف سے تھا۔ اسی طرح آپؐ کو اس کتاب یعنی قرآن کا ملنا بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اس بارے میں آپؐ کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ یہ انداز بیان سمجھنے کے لیے قرآن کا وہی اسلوب ذہن میں رکھئے جس کا ذکر قبل ازیں بار بار ہو چکا ہے کہ اکثر ایسے احکام جو حضور کو صیغۂ واحد میں مخاطب کرکے دیے جاتے ہیں وہ دراصل امت کے لیے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ میں گویا ہم سب مخاطب ہیں اور اس کا مفہوم دراصل یہ ہے کہ اے مسلمانو! تم لوگوں کو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے پہلے موسیٰؑ کو جو کتاب (تورات) ملی تھی وہ بھی انہیں اللہ ہی نے دی تھی اور محمد کو اس کتاب (قرآن) کا ملنا بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

      وَجَعَلْنٰـہُ ہُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ: ’’اور اس (تورات) کو ہم نے بنا دیا تھا راہنمائی بنی اسرائیل کے لیے۔‘‘ 

UP
X
<>