May 5, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 30

يَا نِسَاء النَّبِيِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا

اے نبی کی بیویو ! تم میں سے جو کوئی کسی کھلی بے ہودگی کا ارتکاب کرے گی، اُ س کا عذاب بڑھا کر دوگنا کر دیا جائے گا، اور اﷲ کیلئے ایسا کرنا بہت آسان ہے

آیت ۳۰     یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ: ’’اے نبیؐ کی بیویو! تم میں سے جو کوئی (بالفرض) کسی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرے گی اسے دوگنا عذاب دیاجائے گا۔‘‘

         وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا: ’’اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔‘‘

        یہ نہ سمجھنا کہ آپ نبیؐ کی بیویاں ہو اور نبیؐ آپ کو بچا لیں گے۔ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کا قانون بہت واضح ہے کہ اگر کسی شخص کے اپنے اعمال درست نہ ہوں تو آخرت میں اسے کوئی دوسرا نہیں بچا سکے گا۔ اس حوالے سے حضرت لوط کی بیوی کا ذکر قرآن میں کثرت سے آیا ہے۔ سورۃ التحریم میں حضرت لوط کی بیوی کے ساتھ حضرت نوحd کی بیوی کا ذکر بھی ہے کہ وہ دونوں انبیاء کی بیویاں ہوتے ہوئے بھی عذاب سے نہ بچ سکیں۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت (وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ) (الشعراء) نازل ہوئی تو رسول اللہ  نے قریش کے تمام خاص و عام کو بلا کر جمع فرمایا اور ایک ایک قبیلے کا نام لے کر اس کے افراد کو مخاطب فرمایا:((یا بنی کعب بن لؤی!… یا بنی مُرۃ بن کعب!… یا بنی عبد شمس!… یا بنی عبد مناف!… یا بنی ھاشم!… یا بنی عبدالمطلب!)) اور ہر ایک کو یہی فرمایا: ((اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ)) ’’اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ!‘‘ آخر میں آپ  نے اپنی پیاری بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہراء کو مخاطب کرتے ہوئے بھی یہی فرمایا: ((یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ، فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَـکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا)) ’’اے محمد کی بیٹی فاطمہ! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ! اس لیے کہ میں تم لوگوں کو اللہ کی گرفت سے بچانے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا۔‘‘ (صحیح مسلم، ح:۲۰۴)

        دوسری روایت کے مطابق آپ  نے اپنے خاندان کے افراد کو بھی نام لے لے کر مخاطب فرمایا: ((یَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا، یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ! لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ! سَلِینِیْ بِمَا شِئْتِ، لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا)) (صحیح مسلم، ح:۲۰۶) ’’اے (میرے چچا) عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کے محاسبے کے وقت آپ کے کچھ کام نہ آ سکوں گا۔ اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ!میں اللہ کے محاسبے کے وقت آپ کے کچھ کام نہ آ سکوں گا۔ اے اللہ کے رسول کی بیٹی فاطمہ! مجھ سے جو چاہو مانگ لو، لیکن میں اللہ کے محاسبے کے وقت تمہارے کچھ کام نہ آ سکوں گا۔‘‘

        یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ آیت قرآنی کے الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ، معاذ اللہ، نبی اکرم  کی ازواجِ مطہراتlسے کسی بے حیائی کا اندیشہ تھا، بلکہ اس سے مقصود آپ  کی ازواج کو یہ احساس دلانا تھا کہ اسلامی معاشرے میں ان کا مقام جس قدر بلند ہے اسی کے لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بھی بہت سخت ہیں، اس لیے ان کا اخلاقی رویہ انتہائی پاکیزہ ہونا چاہیے۔ 

UP
X
<>