May 4, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 46

وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا

اور اﷲ کے حکم سے لوگوں کو اﷲ کی طرف بلانے والے، اور روشنی پھیلانے والے چراغ ہو

آیت ۴۶    وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا: ’’اوراللہ کی طرف بلانے والا اُس کے حکم سے اور ایک روشن چراغ بنا کر۔‘‘

        یہاں پر بِـاِذْنِہٖ کا لفظ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لیے ’’مامور من اللہ‘‘ ہو کر آتا ہے۔ ویسے تو اللہ کا جو بندہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے وہ داعی الی اللہ ہے، لیکن ایک عام داعی اور ایک رسول کی دعوت میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ یہ فرق اس مثال سے سمجھئے کہ حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال رکھنا ہر شہری کا فرض ہے۔ یہ گویا اصولِ شہریت ہے اورعام طور پر گلی محلے میں ایک دوسرے کو اس کی تلقین بھی کی جاتی ہے، اجتماعی طور پر بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ماحول صاف رہے اور آلودگی نہ پھیلے، اور اس کوشش کے اثرات معاشرے کے اندر کسی نہ کسی حد تک نظر بھی آتے ہیں ۔ لیکن ان تمام کوششوں کا مقابلہ یا موازنہ اس محکمے کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جسے حکومت کی طرف سے خصوصی اختیارات کے ساتھ حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل درآمد کی ذمہ داری سونپی گئی ہو، اس محکمے کے چھوٹے بڑے کارندے اسی کام پر مامور ہوں اور اسی کام کی تنخواہ لیتے ہوں۔  اسی طرح سے ملک کے دفاع کی مثال لی جا سکتی ہے۔ ہر شہر ی کا فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق خود کو دفاعِ وطن کے لیے تیار رکھے، لیکن اس فرض کی ادائیگی کے لیے جب باقاعدہ ایک فوج تیار کی جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ چنانچہ اس پہلو سے زیر مطالعہ آیت میں بِاِذْنِہٖ کے لفظ سے رسالت کے فرضِ منصبی کی اہمیت کو خصوصی طور پر اجاگر کیاگیا ہے کہ اے نبی  آپ کوئی عام داعی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کام کے لیے خصوصی طور پر مامور کر کے بھیجا ہے۔ 

UP
X
<>