April 26, 2024

قرآن کریم > فاطر >sorah 35 ayat 29

إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُور

جو لوگ اﷲ کی کتا ب کی تلاوت کرتے ہیں ، اور جنہوں نے نماز کی پابندی کر رکھی ہے، اور ہم نے اُنہیں جو رزق دیا ہے، اُس میں سے وہ (نیک کاموں میں ) خفیہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں ، وہ ایسی تجارت کے اُمیدوار ہیں جو کبھی نقصان نہیں اُٹھائے گی

آیت ۲۹   اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ: ’’یقینا وہ لوگ جو تلاوت کرتے ہیں اللہ کی کتاب کی اور نماز قائم کرتے ہیں‘‘

        وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً: ’’اور خرچ کرتے ہیں اس میں سے جو ہم نے انہیں دیا ہے خفیہ اور اعلانیہ‘‘

        یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَ: ’’وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں کبھی خسارہ نہیں ہو گا۔‘‘

        اللہ کے راستے میں جان و مال خرچ کرنے کو قرآ ن میں تجارت سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ سورۃ الصف میں اس حوالے سے پہلے اہل ِایمان سے سوال کیا گیا : (یٰٓــاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ) ’’اے اہل ایمان !کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کے بارے میں بتاؤں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچا لے؟‘‘ اور پھر جواب میں یوں فرمایا گیا: (تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ:(آیت ۱۱) ’’ (وہ تجارت یہ ہے کہ) تم ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولؐ پر اور ا س کے راستے میں جہاد کرو اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ۔‘‘

        کسی بھی کاروبار اور تجارت کو کامیاب کرنے کے لیے سرمایہ اور محنت دونوں چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ جس طرح دنیا میں تم اپنی تجارت کو فروغ دینے اور زیادہ منافع کمانے کے لیے بڑھ چڑھ کر سرمایہ لگاتے ہو اور پھر اس میں دن رات کی محنت سے جان بھی کھپاتے ہو، اسی طرح جان و مال لگا کر اگر تم اللہ کے ساتھ تجارت کرو گے تو اس میں تمہیں کبھی نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا اور منافع بھی ایسا ملے گا کہ تم آخرت کے عذاب سے چھٹکارا پا کر ہمیشہ کی کامیابی سے ہمکنار ہو جاؤ گے۔

        آیت زیر مطالعہ میں نیک اعمال کی ترغیب کو عام فہم بنانے کے لیے تجارت کی تشبیہہ کا استعمال کیا گیا ہے۔ دراصل قرآن مجید بنیادی باتوں کو سمجھانے کے لیے عموماً ایسے الفاظ استعمال کرتاہے جو عام لوگوں کی سمجھ میں بھی آسانی سے آ جائیں۔ جیسے سورۃ التوبہ کی آیت: ۱۱۱ میں فرمایا گیا: (اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ) ’’یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔‘‘ اس آیت میں بھی ایک ’’سودے‘‘ کی بات کی گئی ہے تا کہ ہر آدمی مضمون کے اصل مدعا کو سمجھ سکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کرلے جو اس کے ساتھ اپنے مال و جان کا سودا کرنے والے ہیں !

UP
X
<>