May 18, 2024

قرآن کریم > الصّافّات >sorah 37 ayat 71

وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الأَوَّلِينَ

اوران سے پہلے جو لوگ گذر چکے ہیں ، اُن میں سے اکثر لوگ بھی گمراہ ہوئے

آیت ۷۱   وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَہُمْ اَکْثَرُ الْاَوَّلِیْنَ: ’’اور ان سے پہلے لوگوں کی بھی اکثریت گمراہ تھی۔‘‘

        یعنی ماضی میں بھی لوگوں کی اکثریت گمراہ ہی تھی۔ اس حوالے سے ہم سورۃ الانعام کی آیت ۱۱۶ میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی پڑھ چکے ہیں :(وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) ’’اور اگر تم پیروی کرو گے زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کی تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے لازماً گمراہ کر دیں گے‘‘ ۔ یہی مضمون سورۂ یوسف میں اس طرح بیان ہوا ہے: (وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلاَّ وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ:) ’’اور ان میں اکثر لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے مگر (کسی نہ کسی نوع کا) شرک بھی کرتے ہیں۔‘‘

        گویا ہر زمانے کی اکثریت کسی نہ کسی قسم کے شرک میں ملوث رہی ہے۔ اورتوحید کے ساتھ شرک کی ملاوٹ کی ابتدا ہمیشہ یوں ہوتی رہی کہ اللہ کو ایک بڑے معبود کے طور پر مان لیا جاتا‘ لیکن اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے معبود بھی بنا لیے جاتے۔پھر آہستہ آہستہ بڑا معبود اس لیے پس منظر میں چلا جاتا کہ وہ انسانی سوچ سے وراء الوراء‘ ثم وراء الوراء ہے اور پردئہ غیب میں بھی ہے‘ جبکہ چھوٹے اور خود ساختہ معبود ’’پیکر محسوس‘‘ کے طور پر ہر وقت اپنے پجاریوں کے سامنے حاضر و موجود ہوتے۔ اس طرح رفتہ رفتہ یہ خود ساختہ معبود ہی ُکلی ّطور پر ان کے اعصاب پر سوار ہوجاتے۔ پھر اللہ کے بارے میں یہ لوگ یہی گمان کرتے کہ وہ تو بس اپنی ذات میں مگن ہے اور اسے کائنات کی اب کوئی فکر نہیں ۔

        جیسے ’’مشائین‘‘ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اسی طرح کے گمراہ کن نظریات رکھتے ہیں۔ (مشائین کے لغوی معنی ہیں چلنے پھرنے والے۔ ابتدائی طور پر اس گروہ کے لوگ چلتے پھرتے ہوئے اپنے استاد سے سیکھتے اور معلومات اخذ کرتے رہتے تھے‘ اس لیے وہ اس نام سے موسوم ہو گئے۔) اس گروہ کا ’’امام‘‘ ارسطوہے اور ہمارے ہاں کے اکثر متکلمین (علمائے فلسفہ) بھی اسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ ارسطو کا فلسفہ اس حوالے سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف کلیات کا عالم ہے‘ جزئیات کا نہیں۔ یعنی اللہ نے اس کائنات کو پیدا کر دیا ہے‘ اس کے لیے کچھ قوانین بنا دیے ہیں اور اب یہ سارا نظام ان قوانین کے مطابق خود بخود چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس کائنات کی اب نہ تو کوئی فکر ہے اور نہ ہی اب یہ اس کے کنٹرول میں ہے۔ جیسے کسی کھلاڑی نے فٹ بال کو ِکک لگائی تو فٹ بال تیزی سے لڑھکنے لگا۔ اب فٹ بال کی حرکت اس ِکک لگانے والے کے کنٹرول میں نہیں رہی۔ وہ اسے روکنا بھی چاہے تو روک نہیں سکتا۔ اب تو اس کی رفتارزمین کی رگڑ (friction) سے کم ہو گی یا راستے میں کوئی رکاوٹ اس کو روک لے گی‘ ورنہ اس کا اپنا زورِ حرکت (momentum) ختم ہو گا تو کہیں جا کر رُکے گا۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں دنیا کے بڑے بڑے حکماء اور فلاسفہ کے ایسے گمراہ کن نظریات رہے ہیں۔ بہرحال انسان جب اپنے بنائے ہوئے پیمانوں پر اللہ کو ناپنا اور تولنا چاہتا ہے تو اسے ایسے ہی حماقت آمیز خیالات و نظریات سوجھتے ہیں۔ 

UP
X
<>