May 19, 2024

قرآن کریم > الصّافّات >sorah 37 ayat 77

وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمْ الْبَاقِينَ

اور ہم نے اُن کی نسل ہی کو باقی رکھا

آیت ۷۷   وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّـتَہٗ ہُمُ الْبٰقِیْنَ: ’’اور ہم نے اُس کی اولاد کو ہی باقی رہنے والا بنایا۔‘‘

        یہ آیت فلسفہ قرآنی کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اس میں اسلوبِ حصر کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ صرف نوح ہی کی اولاد کو ہم نے باقی رہنے والا بنایا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیلاب کے بعد دنیا میں بنی نوعِ انسان کی نسل صرف حضرت نوح کے بیٹوں سے ہی چلی تھی۔

        آپؑ کی قوم کے رویے کے حوالے سے قرآن میں جا بجا جو اشارے ملتے ہیں اس سے تو یہی گمان ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں سے شاید کوئی بھی آپؑ پر ایمان نہیں لایا تھا۔ بلکہ سورۂ ہود کے الفاظ:(وَمَآاٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلاَّ قَلِیْلٌ) سے تو ایسے ہی لگتا ہے جیسے کشتی میں گنتی کے چند افراد تھے جن میں آپؑ خودتھے‘ آپؑ کے تین بیٹے اور ان کے اہل و عیال تھے یا ممکن ہے آپؑ کی کوئی بیوی بھی آپؑ کے ہمراہ ہو۔ اس کے علاوہ کچھ خادمین اور ملازمین ہوں گے اور بس۔ آپؑ کی ایک بیوی اور ایک بیٹا تو غرق ہونے والوں میں شامل تھے۔ اگر کوئی ُخدام ّوغیرہ تھے بھی تو ان کی نسل آگے چلنے کا اہتمام نہیں ہوا ہو گا۔ چنانچہ اس کے بعد نسل انسانی آپؑ کے تین بیٹوں سام‘ حام اور یافث سے ہی چلی۔ اسی لیے آپؑ کو آدمِ ثانی بھی کہا جاتا ہے۔میرے اندازے کے مطابق تقریباًدو ہزار برس کے عرصے میں انسانی آبادی دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہے۔ ورنہ حضرت نوح کے زمانے تک انسانی آبادی صرف اُسی علاقے تک محدود تھی جو سب کی سب سیلاب کی وجہ سے ختم ہو گئی اور صرف وہی چند نفوس زندہ بچے جو آپؑ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔بہر حال آیت زیر مطالعہ کے الفاظ میں یہ مفہوم بہت واضح ہے کہ سیلاب کے بعد نسل انسانی صرف آپؑ کے بیٹوں (ذُرِّیَّتَہٗ) سے ہی آگے چلی۔ کشتی میں اگر آپؑ کے خاندان کے علاوہ کچھ اور لوگ موجود تھے بھی تو ان میں سے کسی کی نسل آگے نہ چل سکی۔

UP
X
<>