May 2, 2024

قرآن کریم > ص >sorah 38 ayat 86

قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ

(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ : ’’ میں تم سے اس (اسلام کی دعوت) پر کوئی اُجرت نہیں مانگتا، اور نہ میں بناوٹی لوگوں میں سے ہوں

آیت ۸۶:   قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْر: ’’ (اے نبی !) آپ کہیے کہ میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا‘‘

        یہ واقعہ سنا کر اب حضور سے مخاطب ہو کر فرمایا جا رہا ہے کہ آپؐ انہیں جتلائیں کہ میں تم لوگوں کو یہ غیب کی خبریں سنا رہا ہوں‘ ازل میں رو نما ہونے والے واقعات کی تفصیلات سے تمہیں آگاہ کر رہا ہوں‘ لیکن تم ذرا یہ بھی توسوچو کہ میں نے اس سب کچھ کے عوض تم لوگوں سے کبھی کوئی اجر یا انعام تو طلب نہیں کیا۔

         وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ: ’’اور میں کوئی بناوٹ کرنے والوں میں سے بھی نہیں ہوں۔‘‘

        مُتَـکَلِّف (تکلف کرنے والا) کا مفہوم سمجھنے کے لیے دو ایسے اشخاص کی مثال سامنے رکھیں جن میں سے ایک شاعر ہے اور دوسرا متشاعر۔ ایک شخص فطری طور پر شاعر ہے‘ شاعری اس کی طبیعت میں گندھی ہوئی ہے اور اس پر اشعار کی آمد ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے شخص (متشاعر) کی طبیعت شعر کے لیے بالکل موزوں نہیں ہے۔ البتہ وہ محنت کرتا ہے‘ علم عروض کے امور سیکھنے کی کوشش کرتا ہے‘ ذخیرئہ الفاظ جمع کرتا ہے‘ قافیے جوڑتا ہے اور یوں تصنع ّاور تکلف ّسے شعر کہتا ہے۔ چنانچہ یہ شخص شاعری کے میدان میں گویا ’’مُتَکَلِّف‘‘ ہے۔ چنانچہ ان آیات میں حضور کی زبانِ اطہر سے مشرکین ِمکہ ّکے لیے کہلوایا جا رہا ہے کہ لوگو! کچھ تو عقل سے کام لو‘ تم لوگ مجھے بچپن سے جانتے ہو: (فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ) (یونس:۱۶) ’’میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں اس سے پہلے بھی‘‘ ۔ میرے عادات و اطوار اور میری طرزِ زندگی سے تم اچھی طرح واقف ہو۔ تم خوب جانتے ہو کہ میں کوئی تکلف اور تصنع پسند شخص نہیں ہوں۔ تم اس حقیقت سے بھی آگاہ ہو کہ میں نے اب تک کی عمر میں کبھی کوئی شعر نہیں کہا‘ اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ میں نے خطابت کا فن سیکھنے کے لیے کبھی کوئی مشقت یا ریاضت نہیں کی۔ تو تم لوگوں نے یہ کیسے سوچ لیا ہے کہ اب میں نے اچانک تکلف اور تصنع کا سہارا لے کر شاعری میں طبع آزمائی شروع کر دی ہے اور تم لوگوں کو وحی کے نام پر میں اپنا کلام سنا رہا ہوں ؟

UP
X
<>