May 4, 2024

قرآن کریم > الزمر >sorah 39 ayat 17

وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى فَبَشِّرْ عِبَادِ

اور جن لوگوں نے اس بات سے پرہیز کیا ہے کہ وہ طاغوت کی عبادت کر نے لگیں ، اور اُنہوں نے اﷲ سے لَو لگائی ہے، خوشی کی خبر اُنہی کیلئے ہے، لہٰذا میرے اُن بندوں کو خوشی کی خبر سنا دو

آیت ۱۷:  وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْہَا:  ’’اور وہ لوگ جنہوں  نے طاغوت سے کنارہ کشی کر لی (اس طرح)  کہ اُس کی بندگی نہ کی‘‘

        طاغوت کا لفظ قرآن میں  متعدد بار آیا ہے۔ سب سے پہلے ہم نے یہ لفظ سورۃ البقرۃ کی اس آیت میں  پڑھا تھا (فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ  بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی)  (آیت: ۲۵۷) ’’تو جو کوئی بھی طاغوت کا انکار کرے اور پھر اللہ پر ایمان لائے تو اس نے بہت مضبوط حلقہ تھام لیا‘‘۔ لفظ طاغوت کا مادہ ’’طغی ‘‘ہے اور اس کے معنی سرکشی کے ہیں۔ اسی مادہ سے اردو لفظ ’’طغیانی‘‘ مشتق ہے۔ دریا اپنے کناروں کے اندر بہہ رہا ہو تو بہت خوبصورت منظر پیش کرتا ہے لیکن جب وہ اپنی ’’حدود ‘‘سے باہر نکل آئے تو ہم کہتے ہیں  کہ دریامیں  طغیانی آ گئی ہے۔ اسی طرح انسان اگر اللہ کی بندگی کی حدمیں  رہے تو وہ اللہ کا بندہ ہے، اُس کا خلیفہ ہے اور اشرف المخلوقات ہے۔ لیکن اگر بندگی کی حد ودسے تجاوز کر جائے تو وہ ’’طاغوت‘‘ ہے۔ پھر چاہے ان حدود کو پھلانگنے کے بعد وہ اپنے نفس کا بندہ بن جائے یا کسی اور کو اپنا مطاع بنا لے، خود حاکم بن بیٹھے یا اللہ کے علاوہ کسی اور کی حاکمیت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لے ، اللہ کی نظر میں  وہ طاغوت ہی ہے۔ چنانچہ آیت زیر مطالعہ میں  ان لوگوں  کا ذکر ہے جنہوں  نے کنارہ کشی کر لی اس سے کہ وہ طاغوت کی اطاعت یا بندگی کریں :

        وَاَنَابُوْٓا اِلَی اللّٰہِ لَہُمُ الْبُشْرٰی فَبَشِّرْ عِبَادِ:  ’’اور انہوں  نے رجوع کر لیا اللہ کی طرف، اُن کے لیے بشارت ہے، تو (اے نبی!)  میرے ان بندوں  کو بشارت دے دیجیے۔ ‘‘

        اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! اب اگلی آیت بہت اہم ہے، اس میں  ان بندوں  کی صفت بیان کی گئی ہے جنہیں  بشارت دی جا رہی ہے۔ 

UP
X
<>