April 26, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 11

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلأُمِّهِ السُّدُسُ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَآؤُكُمْ وَأَبناؤُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيما حَكِيمًا 

اﷲ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو حکم دیتا ہے کہ : مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اور اگر (صرف) عورتیں ہی ہوں ، دو یا دو سے زیادہ، تو مرنے والے نے جو کچھ چھوڑا ہو، انہیں اس کا دو تہائی حصہ ملے گا۔ اور اگر صرف ایک عورت ہو تو اسے (ترکے کا) آدھا حصہ ملے گا۔ اور مرنے والے کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا، بشرطیکہ مرنے والے کی کوئی اولاد ہو، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہواور اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں تہائی حصے کی حق دار ہے۔ ہاں اگر اس کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ دیا جائے گا، (اور یہ ساری تقسیم) اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی جو مرنے والے نے کی ہو، یا اگر اس کے ذمے کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد۔ تمہیں اس بات کا ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہے کہ تمہارے باپ بیٹوں میں سے کون فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تم سے زیادہ قریب ہے ؟ یہ تو اﷲ کے مقرر کئے ہوئے حصے ہیں ؛ یقین رکھو کہ اﷲ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک

 آیت ۱۱    یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلاَدِکُمْ: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں وصیت کرتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں‘‘   

             لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْـثَـیَیْنِ: ’’کہ لڑکے کے لیے حصہ ہے دو لڑکیوں کے برابر۔‘‘

             فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْـنَـتَـیْنِ فَلَہُنَّ ثُـلُـثَا مَا تَرَکَ: ’’پھر اگر لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زیادہ تو ان کے لیے ترکے کا دو تہائی ہے۔‘‘

             وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ: ’’اور اگر ایک ہی لڑکی ہے تو اس کے لیے آدھا ہے۔‘‘

            ظاہر ہے اگر ایک ہی بیٹا ہے تو وہ پورے ترکے کا وارث ہو جائے گا ۔لہٰذا جب بیٹی کا حصہ بیٹے سے آدھا ہے تو اگر ایک ہی بیٹی ہے تو اسے آدھی وراثت ملے گی‘ آدھی دوسرے لوگوں کو جائے گی۔ وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔

             وَلِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَـہ وَلَــدٌ: ’’اور میت کے والدین میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے جو اُس نے چھوڑا اگر میت کے اولاد ہو۔‘‘

            اگر کوئی شخص فوت ہوجائے اور اس کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک زندہ ہو تو اس کی وراثت میں سے ان کا بھی معین حصہ ہے۔ اگر وفات پانے والا شخص صاحب اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کے لیے وراثت میں چھٹا حصہ ہے۔ یعنی میت کے ترکے میں سے ایک تہائی والدین کو چلا جائے گا اور دو تہائی اولاد میں تقسیم ہو گا۔   ّ

             فَاِنْ لَّـمْ یَکُنْ لَّــہ وَلَــدٌ وَّوَرِثَہ اَبَوٰہُ فَلاُِمِّہِ الثُّلُثُ: ’’اور اگر اُس کے اولاد نہ ہو اور اُس کے وارث ماں باپ ہی ہوں تو اُس کی ماں کا ایک تہائی ہے۔‘‘

            اگر کوئی شخص لاولد فوت ہو جائے تو اس کے ترکے میں سے اس کی ماں کو ایک تہائی اور باپ کو دو تہائی ملے گا۔ یعنی باپ کا حصہ ماں سے دوگنا ہو جائے گا۔

             فَاِنْ کَانَ لَـہ اِخْوَۃٌ فَلاُِمِّـہِ السُّدُسُ: ’’پھر اگر میت کے بہن بھائی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے‘‘   

            اگر مرنے والا بے اولاد ہو لیکن اس کے بہن بھائی ہوں تو اس صورت میں ماں کا حصہ مزید کم ہو کر ایک تہائی کے بجائے چھٹا حصہ رہ جائے گا اور باقی باپ کو ملے گا‘ لیکن بہن بھائیوں کو کچھ نہ ملے گا۔ وہ باپ کی طرف سے وراثت کے حق دار ہوں گے۔ لیکن ساتھ ہی فرما دیا:

             مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِہَـآ اَوْ دَیْنٍ: ’’بعد اس وصیت کی تعمیل کے جو وہ کر جائے یا بعد ادائے قرض کے۔‘‘

            وراثت کی تقسیم سے پہلے دو کام کر لینے ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ اگر اس شخص کے ذمے کوئی قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے۔ اور دوسرے یہ کہ اگر اُس نے کوئی وصیت کی ہے تو اس کو پورا کیا جائے۔پھر وراثت تقسیم ہو گی۔

             اٰبَــآؤُکُمْ وَاَبْـنَــآؤُکُمْ لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّـہُـمْ اَقْرَبُ لَــکُمْ نَفْعًا: ’’تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے‘ تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہارے لیے زیادہ نافع ہے۔‘‘

              فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ:  ’’یہ اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا فریضہ ہے۔‘‘

            تم اپنی عقلوں کو چھوڑو اور اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصوں کے مطابق وراثت تقسیم کرو۔ کوئی آدمی یہ سمجھے کہ میرے بوڑھے والدین ہیں‘ میری وراثت میں خواہ مخواہ ان کے لیے حصہ کیوں رکھ دیا گیا ہے؟ یہ تو کھاپی‘چکے‘ زندگی گزار چکے‘ وراثت تو اب میری اولاد ہی کو ملنی چاہیے‘ تو یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ تمہیں بس اللہ کا حکم مانناہے۔

             اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا:  ’’یقینا اللہ تعالیٰ علم و حکمت والا ہے۔‘‘

            اس کا کوئی حکم علم اور حکمت سے خالی نہیں ہے۔ 

UP
X
<>