April 26, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 41

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاء شَهِيدًا 

پھر (یہ لوگ سوچ رکھیں کہ) اس وقت (ان کا) کیا حال ہوگا جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے، اور (اے پیغمبر !) ہم تم کو ان لوگوں کے خلاف گواہ کے طور پر پیش کریں گے ؟

 آیت 41:    فَـکَیْفَ اِذَا جِئْـنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ: ’’تو اُس دن کیا صورت حال ہو گی جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے‘‘ 

            یعنی اُس نبی اور رسول کو گواہ بنا کر کھڑا کریں گے جس نے اس اُمت کو دعوت پہنچائی ہو گی۔

             وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓــؤُلَآءِ شَہِیْدًا: ’’اور (اے نبی) آپ کو لائیں گے ہم ان پر گواہ بنا کر۔‘‘

            یعنی آپ کو کھڑے ہو کر کہنا ہو گا کہ اے اللہ! میں نے ان تک تیرا پیغام پہنچا دیا تھا۔ ہماری عدالتی اصطلاح میں اسے استغاثہ کا گواہ (prosecution witness)  کہا جاتا ہے۔ گویا عدالت ِ خداوندی میں نبی مکرم  استغاثہ کے گواہ کی حیثیت سے پیش ہو کر کہیں گے کہ اے اللہ‘ تیرا پیغام جو مجھ تک پہنچا تھا میں نے انہیں پہنچادیا تھا‘ اب یہ خود ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔  چنانچہ اپنی ہی قوم کے خلاف گواہی آ گئی نا؟ یہاں الفاظ نوٹ کر لیجیے:   «عَلٰی ہٰٓــؤُلَآءِ شَہِیْدًا» اور  «عَلٰی» ہمیشہ مخالفت کے لیے آتا ہے۔ ہم تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے شفاعت کی امید میں ہیں اور یہاں ہمارے خلاف مقدمہ قائم ہونے چلا ہے۔ اللہ کے رسول  دربارِ خداوندی میں ہمارے خلاف گواہی دیں گے کہ اے اللہ! میںنے تیرا دین ان کے سپرد کیا تھا‘ اب اسے دنیا میں پھیلانا ان کا کام تھا‘ لیکن انہوں نے خود دین کو چھوڑ دیا۔ سورۃ الفرقان میں الفاظ آئے ہیں: وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا.  ’’اور رسول کہیں گے کہ پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو ترک کر دیا تھا‘‘۔ سورۃ النساء کی آیت زیر مطالعہ کے بارے میں ایک واقعہ بھی ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ  نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے ارشاد فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ! انہوں نے عرض کیا حضور آپ کو سناؤں؟ آپ پر تو نازل ہوا ہے۔ فرمایا: ہاں‘ لیکن مجھے کسی دوسرے سے سن کر کچھ اور حظ حاصل ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ  نے سورۃ النساء پڑھنی شروع کی۔حضور بھی سن رہے تھے‘ باقی اور صحابہ  بھی ہوں گے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ‘ گردن جھکائے پڑھتے جا رہے تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے:  فَـکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓــؤُلَآءِ شَہِیْدًا.  تو حضور  نے فرمایا: حَسْبُکَ‘ حَسْبُکَ (بس کرو‘ بس کرو!) عبد اللہ بن مسعود  نے سر اٹھا کر دیکھا تو حضور کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اس وجہ سے کہ مجھے اپنی قوم کے خلاف گواہی دینی ہو گی۔ 

UP
X
<>