May 19, 2024

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 43

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى حَتَّىَ تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ وَلاَ جُنُبًا إِلاَّ عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىَ تَغْتَسِلُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاء أَحَدٌ مِّنكُم مِّن الْغَآئِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاء فَلَمْ تَجِدُواْ مَاء فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا

اے ایمان والو ! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو اس وقت تک نماز کے قریب بھی نہ جانا جب تک تم جو کچھ کہہ رہے ہو اسے سمجھنے نہ لگو، اور جنابت کی حالت میں بھی جب تک غسل نہ کر لو (نماز جائز نہیں) اِلّا یہ کہ تم مسافر ہو (اور پانی نہ ملے تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتے ہو) ۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کی جگہ سے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو، پھر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو، اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا (اس مٹی سے) مسح کر لو۔ بیشک اﷲ بڑا معاف کرنے والا بڑا بخشنے والا ہے

 آیت 43:   یٰٓـــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْــتُمْ سُکٰرٰی: ’’اے اہل ایمان‘ نماز کے قریب نہ جاؤ اس حال میں کہ تم نشے کی حالت میں ہو‘‘

             حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ: ’’یہاں تک کہ تمہیں معلوم ہو جو کچھ تم کہہ رہے ہو‘‘

            سورۃ البقرۃ (آیت: 219) میں شراب اور جوئے کے بارے میں محض اظہارِ ناراضگی فرمایا گیا تھا کہ  اِثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّـفْعِھِمَا. ’’ان کا گناہ کا پہلو نفع کے پہلو سے بڑا ہے۔‘‘ اب اگلے قدم کے طور پر شراب کے اندر جو خباثت‘ شناعت اور برائی کا پہلو ہے اسے ایک مرتبہ اور اجاگر کیا گیا کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جایا کرو۔ جب تک نشہ اُتر نہ جائے اور تمہیں معلوم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو اُس وقت تک نماز نہ پڑھا کرو۔ چونکہ شراب کی حرمت کا حکم ابھی نہیں آیا تھا لہٰذا بعض اوقات لوگ نشے کی حالت ہی میں نماز پڑھنے کھڑے ہو جاتے اور کچھ کا کچھ پڑھ جاتے۔ ایسے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں کہ کسی نے نشے میں نماز پڑھائی اور ’’لَا اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ‘‘ کے بجائے ’’اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ‘‘ پڑھ دیا۔ اس پر خاص طور پر یہ آیت نازل ہوئی:   حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ. کے الفاظ قابل ِغور ہیں کہ جب تک کہ تم شعور کے ساتھ سمجھ نہ رہے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو! اس میں ایک اشارہ ادھر بھی ہو گیا کہ بے سمجھے نماز مت پڑھا کرو! یعنی ایک تو مدہوشی کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آ رہا اور غلط سلط پڑھ رہے ہیں تو اس سے روکا جا رہا ہے‘ اور ایک سمجھتے ہی نہیں کہ نماز میں کیا پڑھ رہے ہیں۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم کہہ کیا رہے ہو۔ اب جنہیں قرآن مجید کے معنی نہیں آتے‘ نماز کے معنی نہیں آتے‘ انہیں کیا پتا کہ وہ نماز میں کیا کہہ رہے ہیں!

             وَلاَ جُنُبًا اِلاَّ عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا:’’اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے قریب نہ جاؤ) جب تک غسل نہ کر لو‘ اِلاّ یہ کہ راستے سے گزرتے ہوئے۔‘‘

            اگر تم نے اپنی بیویوں سے مباشرت کی ہو یا احتلام وغیرہ کی شکل ہو گئی ہو تب بھی تم نماز کے قریب مت جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو۔ ’’ اِلاَّ عَابِرِیْ سَبِیْلٍ‘‘ کے بارے میں بہت سے قول ہیں۔ بعض فقہاء اور مفسرین نے اس کا یہ مفہوم سمجھا ہے کہ حالت ِجنابت میں مسجد میں نہ جانا چاہیے‘ اِلا یہ کہ کسی کام کے لیے مسجد میںسے گزرنا ہو‘ جبکہ بعض نے اس سے مراد سفر لیا ہے۔

             وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ: ’’اور اگر تم بیمار ہو یا سفرمیں ہو‘‘

            آدمی کو تیز بخار ہے یا کوئی اور تکلیف ہے جس میں غسل کرنا مضر ثابت ہو سکتا ہے تو تیمم کی اجازت ہے۔ اسی طرح کوئی شخص سفر میں ہے اور اسے پانی دستیاب نہیں ہے تو وہ تیمم کر لے۔

             اَوْ جَآء اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ: ’’یا تم میں سے کوئی قضاء حاجت کے بعد آیا ہو‘‘

              اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآء: ’’یا تم نے عورتوں کے ساتھ مباشرت کی ہو‘‘

             فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءاً: ’’پھر تم پانی نہ پاؤ‘‘

             فَـتَـیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَـیِّـبًا: ’’تو پاک مٹی کا قصد کرو‘‘

            یعنی وہ تمام صورتیں جن میں غسل یا وضو واجب ہے‘ ان میں اگر بیماری غسل سے مانع ہو‘ حالت سفر میں نہانا ممکن نہ ہو‘ قضائے حاجت یا عورتوں سے مباشرت کے بعد پانی دستیاب نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا جائے۔

             فَامْسَحُوْا  بِوُجُوْہِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ: ’’اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو۔‘‘

             اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا: ’’یقینا اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا‘ بخشنے والا ہے۔‘‘

            حضرت عائشہ سے لیلۃ القدر کی جو دعا مروی ہے اس میں یہی لفظ آیا ہے: «اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ» ’’اے اللہ‘ تو معاف فرمانے والا ہے‘ معافی کو پسند کرتا ہے‘ پس تو مجھے معاف فرما دے!‘‘

            سورۃ النساء کی ان تینتالیس آیات میں وہی سورۃ البقرۃ کا انداز ہے کہ شریعت کے احکام مختلف گوشوں میں‘  مختلف پہلوؤں سے بیان ہوئے۔ عبادات کے ضمن میں تیمم کا ذکر آگیا‘ وراثت کا قانون پوری تفصیل سے بیان ہو گیا اور معاشرے میں جنسی بے راہ روی کی روک تھام کے لیے احکام آ گئے‘ تاکہ ایک پاکیزہ اور صالح معاشرہ وجود میں آئے جہاں ایک مستحکم خاندانی نظام ہو۔ اب یہاں ایک مختصر سا خطاب اہل کتاب کے بارے میں آ رہا ہے۔

UP
X
<>