May 4, 2024

قرآن کریم > غافر >sorah 40 ayat 25

فَلَمَّا جَاءهُم بِالْحَقِّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاء الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءهُمْ وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلاَّ فِي ضَلالٍ

 پھر جب وہ لوگوں کے پاس وہ حق بات لے کر گئے جو ہماری طرف سے آئی تھی تو اِنہوں نے کہا کہ : ’’ جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لے آئے ہیں ، اُن کے بیٹوں کو قتل کر ڈالو، اور اُن کی عورتوں زندہ رکھو۔‘‘ حالانکہ کافروں کی چال کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ مقصد تک نہ پہنچ سکیں

آیت ۲۵:   فَلَمَّا جَآءَہُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوْٓا اَبْنَآءَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ وَاسْتَحْیُوْا نِسَآءَہُمْ:  ’’تو جب وہ آیا ان کے پاس ہماری طرف سے حق لے کر تو انہوں نے کہا کہ جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائیں ان کے بیٹوں کو قتل کر دو اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رکھو۔‘‘

         وَمَا کَیْدُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ:   ’’لیکن کافروں کا داؤ بھٹک کر ہی رہ جاتا ہے۔‘‘

        اس سے پہلے ہم سورۃ الاعراف کے پندرھویں رکوع میں بھی سردارانِ قومِ فرعون کے اس مطالبے کے بارے میں پڑھ چکے ہیں کہ آپ موسیٰؑ کو کب تک ڈھیل دیتے رہیں گے؟ لوگ دھڑا دھڑ اس پر ایمان لا رہے ہیں‘ روز بروز اس کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں ملک کے اندر فساد پھیل رہا ہے۔ آپ اسے قتل کیوں نہیں کروا دیتے؟ لیکن جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہو چکا ہے کہ فرعون ایک وقت تک حضرت موسیٰ کے خلاف کوئی سخت اقدام کرنے سے کتراتا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت موسیٰ کو گویا اپنا بڑا بھائی سمجھتا تھا اور اس تعلق کی وجہ سے وہ دل میں آپ کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے حضرت موسی کی پیدائش سے لے کر بحیثیت رسول فرعون کے سامنے آنے تک کے واقعات کو ایک دفعہ پھر سے ذہن میں تازہ کرلیجیے۔ ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی پیدائش کے وقت رعمسیس دوم فرعون برسر اقتدار تھا۔ حضرت موسی کو دریا سے نکال کر جب اس کے محل میں لایا گیا تو اس کی بیوی نے کسی طرح اسے قائل کر لیا کہ اس بچے کو قتل نہ کیا جائے۔ اس موقع پر فرعون کی بیوی کے اپنے شوہر کے ساتھ مکالمے کو سورۃ القصص میں یوں نقل کیا گیا ہے: (وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَلَکَ لَا تَقْتُلُوْہُ   عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا)  (آیت: ۹) ’’اور فرعون کی بیوی نے کہا کہ یہ آنکھوں کی ٹھنڈک ہے میرے لیے بھی اور تمہارے لیے بھی۔ تم اسے قتل مت کرو‘ ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا ہی بنا لیں‘‘۔ غالب گمان یہی ہے کہ وہ خاتون حضرت آسیہ ہی تھیں جن کا ذکر سورۃ التحریم میں آیا ہے۔ اس وقت تک فرعون بے اولاد تھا۔ بعد میں اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ چنانچہ فرعون کا حقیقی بیٹا اور حضرت موسیٰ  سگے بھائیوں کی طرح اکٹھے رہے اور ایک ساتھ جوانی کی عمر کو پہنچے۔

        اس کے بعد حضرت موسیٰ  کے ہاتھوں ایک قبطی کا قتل ہو گیا تو آپ مدین چلے گئے۔ مدین سے آپ کی واپسی کے زمانے میں بڑا فرعون اگرچہ زندہ تھا مگر بڑھاپے کی وجہ سے اس نے تمام امور سلطنت اپنے بیٹے (منفتاح) کو سونپ رکھے تھے ۔ اس طرح عملی طور پر اس کا بیٹاہی حکمران تھا جو ایک طرح سے حضرت موسیٰ کا بھائی اور بچپن کا ساتھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے بڑے بڑے سرداروں کے پر زور مطالبے کے باوجود بھی وہ کئی سال تک حضرت موسیٰ کے خلاف انتہائی اقدام کرنے سے گریز کرتا رہا۔ پھرجب اُس نے کسی سخت اقدام کو ناگزیر سمجھا بھی تو آپ کی ذات کے بجائے آپ کی قوم کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے تحت اس نے ایک دفعہ پھر حکم دے دیا کہ بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہونے والے لڑکوں کو قتل کر دیا جائے اور صرف ان کی بیٹیوں کو ہی زندہ رہنے دیا جائے۔ اس کا خیال تھا کہ اس طرح وہ اس تحریک کو کچلنے اور بنی اسرائیل کی طاقت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ چنانچہ آیت زیر مطالعہ میں اس کے اسی منصوبے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے مخالفین کی کوئی چال بھی اللہ کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ 

UP
X
<>