May 4, 2024

قرآن کریم > غافر >sorah 40 ayat 26

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَلْيَدْعُ رَبَّهُ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الأَرْضِ الْفَسَادَ

اور فرعون نے کہا : ’’ لاؤ، میں موسیٰ کو قتل ہی کر ڈالوں ، اور اُسے چاہیئے کہ اپنے رَبّ کو پکار لے۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا، یا زمین میں فسادبرپا کر دے گا۔‘‘

آیت ۲۶:   وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْیَدْعُ رَبَّہٗ:  ’’اور فرعون نے کہا: مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰؑ کو قتل کر دوں اور وہ (بچاؤ کے لیے) پکار لے اپنے رب کو۔‘‘

        فرعون کے اس فقرے کے اندر بہت سی اَن کہی تفصیلات کی جھلک بھی نظر آ رہی ہے۔ اَوّلاً اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک فرعون بھانپ چکا تھا کہ پانی سر سے گزرنے کو ہے اور یہ کہ اس مرحلے پر اگر موسی کو قتل کر کے راستے سے نہ ہٹایا گیا تو یہ طوفان اس کے اقتدار سمیت مصر کی ’’عظیم الشان تہذیب‘‘ اور ’’مثالی روایات‘‘ کو بھی بہا لے جائے گا۔ ثانیاً اس فقرے سے اس کی بے چارگی بھی عیاں ہو رہی ہے۔ وہ مطلق العنان بادشاہ تھا مگر اس کے باوجود اس نے اپنے وزراء اور امراء سے اس قرارداد کی منظوری کی درخواست کی۔ اس کی ضرورت اسے کیوں محسوس ہوئی؟ دراصل وہ دیکھ رہا تھا کہ حضرت موسیٰؑ کی دعوت سے ہر طبقے کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس لیے اسے اندیشہ تھا کہ اگر اس تجویز پر تمام درباریوں کو اعتماد میں نہ لیا گیا تو ردِ عمل کے طور پر کہیں سے کوئی بغاوت بھی جنم لے سکتی ہے۔

         اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْہِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ :  ’’مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہارا دین بدل دے گا یا زمین میں فساد برپا کر دے گا۔‘‘

        ’’دین‘‘ سے مراد یہاں نظامِ حکومت ہے‘ اور فرعون کو اب سب سے بڑا اندیشہ یہی تھا کہ مصر کا اقتدارِ اعلیٰ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

         فرعون کی مذکورہ قرارداد کی اطلاع حضرت موسیٰ  تک پہنچی تو آپ نے خود کو اللہ کی پناہ میں دینے کے عزم کا اظہار کیا:

UP
X
<>