May 8, 2024

قرآن کریم > غافر >sorah 40 ayat 46

النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ

آگ ہے جس کے سامنے اُنہیں صبح وشام پیش کیا جاتا ہے، اور جس دن قیامت آجائے گی، اُس دن (حکم ہوگا کہ :) ’’ فرعون کے لوگوں کو سخت ترین عذاب میں داخل کر دو۔‘‘

آیت ۴۶:   اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا: ’’ آگ ہے جس پر وہ پیش کیے جاتے ہیں صبح وشام۔‘‘

        یہ قرآن مجید کی دوسری آیت ہے جس سے عذابِ قبر سے متعلق دلیل ملتی ہے (نیز ملاحظہ ہو: سورۃ الفرقان کی آیت: ۶۹ کی تشریح۔ )

         وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ  اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ: ’’اور جس دن قیامت قائم ہوگی (اُس دن کہہ دیا جائے گاکہ) داخل کر دو فرعون کی قوم کو شدید ترین عذاب میں۔‘‘

        اس آیت کے مفہوم کے مطابق آلِ فرعون کو شدید ترین عذاب میں تو قیامِ قیامت کے بعد داخل کیا جائے گا‘ لیکن اس سے پہلے قبر کی زندگی کے دوران صبح وشام انہیں آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے --- عذابِ قبر کے حوالے سے نبی اکرم کے فرمودات بہت واضح ہیں۔ آپؐ کا فرمان ہے: ((اِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ اَوْ حُفْرَۃٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ)) ’’قبریا تو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا‘‘ ۔ منکرین حدیث البتہ عذابِ قبر کی نفی کرتے ہیں۔ در اصل قبر کا معاملہ ایک دوسرے جہان کا معاملہ ہے جو عالم غیب ہے۔ اس ضمن میں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ قبر سے مراد وہ مخصوص گڑھا نہیں جہاں میت کو دفن کیا جاتا ہے‘ بلکہ اس سے مراد عالم برزخ ہے۔ سورۃ المُطفِّفِین میں عالم برزخ کی دو کیفیات عِلِّیِیْن اور سِجِّیْن کا ذکر ملتا ہے ۔ اس عالم میں انسان نیم شعوری کی کیفیت میں ہو تا ہے۔ اگر کوئی خوش قسمت ’’عِلِّیِیْن‘‘ میں ہے تو وہاں جنت کی کھڑکی کھلی ہوتی ہے اور وہ جنت کی ٹھنڈی ہوائوں کے مزے لے رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ’’سِجِّیْن‘‘ میں جہنم کی کھڑکی میں سے آگ کی لپٹ آ رہی ہوتی ہے۔ 

UP
X
<>