May 7, 2024

قرآن کریم > فصّلت >sorah 41 ayat 52

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ثُمَّ كَفَرْتُم بِهِ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ

(اے پیغمبر ! ان کافروں سے) کہو کہ : ’’ ذرا مجھے بتاؤ کہ اگر یہ (قرآن) اﷲ کی طرف سے آیا ہے، پھر بھی تم نے اس کا انکار کیا تو اُس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو (اس کی) مخالفت میں بہت دور نکل گیا ہو؟‘‘

آیت ۵۲:  قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ثُمَّ کَفَرْتُمْ بِہٖ: ’’ (اے نبی!) ان سے کہیے: کیا تم نے غور کیا کہ اگر یہ (قرآن) واقعی اللہ ہی کی طرف سے ہو، پھر تم نے اس کا کفر کیا‘‘

        بے شک تم لوگ قرآن کو اللہ کا کلام ماننے کے لیے تیار نہیں ہو، لیکن تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لوکہ اگریہ واقعی اللہ کا کلام ہو اور تم لوگ اس کے منکر ہو رہے ہو تو:

         مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ ہُوَ فِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ: ’’توکون ہو گا اس سے بڑھ کر بھٹکا ہوا جو دور کی مخالفت میں پڑا ہو!‘‘

        یہ بالکل وہی اسلوب ہے جو اس سے پہلے سورۂ سبا کی اس آیت میں اختیار فرمایا گیا ہے (قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ  اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنٰی وَفُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا  مَا بِصَاحِبِکُمْ مِّنْ جِنَّۃٍ) (آیت: ۴۶) ’’ (اے نبی!) آپ کہیے کہ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں، یہ کہ تم کھڑے ہو جاؤ اللہ کے لیے دو دو ہو کر یا اکیلے اکیلے، پھر غور کرو، نہیں ہے تمہارے ساتھی کو جنون کا کوئی عارضہ۔‘‘

        اب یہاں آخری مرتبہ پھر قرآن مجید کا ذکر آ رہا ہے اور یہ استدلال ہمارے اس موجودہ سائنسی دور کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ 

UP
X
<>