April 26, 2024

قرآن کریم > الشورى >sorah 42 ayat 14

وَمَا تَفَرَّقُوا إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَلَوْلا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ

اور لوگوں نے آپس کی عداوتوں کی وجہ سے (دین میں ) جو تفرقہ ڈالا ہے وہ اس کے بعد ہی ڈالا ہے جب ان کے پاس یقینی علم آچکا تھا۔ اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک معین مدت تک کیلئے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوتی تو ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ اوران لوگوں کے بعد جن کو کتاب کا وارث بنایا گیا ہے، وہ اُس کے بارے میں ایسے شک میں پڑے ہوئے ہیں جس نے اُنہیں خلجان میں ڈال رکھا ہے

آیت ۱۴:  وَمَا تَفَرَّقُوْٓا اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَہُمْ: ’’اور انہوں نے تفرقہ نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا، آپس میں ِضدم ّضدا کے باعث۔‘‘

        عرب میں حضور کی دعوت ِاقامت دین کے مخاطبین بنیادی طور پر دو گروہ تھے، یعنی مشرکین اور اہل کتاب۔ ان میں مشرکین کا تواس دعوت کو ماننا بہت مشکل تھا اور یہ تلخ حقیقت پچھلی آیت میں واضح بھی کر دی گئی ہے کہ آپؐ کی یہ دعوت مشرکین پر بہت شاق گزر رہی ہے۔ البتہ اہل کتاب کا اس دعوت پر ایمان لے آنا نسبتاً زیادہ قرین قیاس تھا، کیونکہ وہ تورات و انجیل جیسی الہامی کتابوں سے واقف تھے اور وحی، ملائکہ اور آخرت پر بھی ایمان رکھتے تھے۔ لیکن زیر مطالعہ آیت میں حضور کو بتایا جا رہا ہے کہ آپؐ اہل کتاب سے بھی مثبت رد عمل کی توقع نہ رکھیں۔ کیونکہ ان دونوں گروہوں کی طرف سے اب تک کی مخالفت کسی لاعلمی کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا اصل پیغام تو ان تک پہنچ چکا ہے، بات پوری طرح واضح ہو کر ا ن کے دلوں میں اُترچکی ہے۔ اس صورت حال میں ان کا انکاراور ان کی مخالفت محض باہمی تعصب اور ضد بازی کی بنا پر ہے، کہ ہم محمد کے پیروکار بن کر انہیں خود سے بڑا کیونکر تسلیم کر لیں اور اپنے آپ کو انؐ کے سامنے چھوٹا کیسے بنا لیں؟ اہل کتاب خود آپس میں بھی ایک دوسرے کی مخالفت اسی تعصب کی بنیاد پر کرتے ہیں، جس کا ذکر سورۃ البقرۃ میں اس طرح آیا ہے (وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیْئٍ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰی لَیْسَتِ الْیَہُوْدُ عَلٰی شَیْئٍ وَّہُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ) (آیت: ۱۳۳) ’’ یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کسی بنیاد پر نہیں ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی کسی بنیاد پر نہیں ہیں، حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھ رہے ہیں۔‘‘

        عہدنامہ قدیم (Old Testament) یہودیوں اور عیسائیوں میں مشترک ہے۔ اس کے باوجود ان کی باہمی مخاصمت کا یہ عالم َہے کہ وہ ایک دوسرے کے قبلہ کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ یروشلم کی ’’سمت‘‘ پر اگرچہ دونوں گروہوں کا اتفاق ہے، لیکن باہمی عناد کی بنا پر ایک گروہ شرقی حصے کو قبلہ مانتا ہے جبکہ دوسرا غربی حصے کو۔ اس صورت حال میں حضور سے فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ تعصب کے مرض میں مبتلا ہیں، اس لیے آپؐ ان میں سے کسی گروہ سے کسی مثبت رویے کی توقع نہ رکھیں، ورنہ آپؐ کو مایوسی ہو گی۔ بلکہ آپؐ ان کی طرف سے انتہائی سخت اور منفی ردعمل کے لیے خود کو تیار کھیں۔ اس میں دراصل حضور کے لیے بین السطور یہ پیغام بھی ہے کہ اقامت دین کی جدوجہد ایک طویل اور جاں گداز عمل ہے۔ اس لیے آپؐ موافق حالات اور جلد کامیابی کی توقع نہ رکھیں۔

         وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیْنَہُمْ: ’’اور اگر ایک بات آپ کے رب کی طرف سے پہلے سے ایک وقت معین کے لیے طے نہ پا چکی ہوتی تو ان کے مابین (اختلافات کا) فیصلہ چکا دیا جاتا۔‘‘

         وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْرِثُوا الْکِتٰبَ مِنْ بَعْدِہِمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍ: ’’اور جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے ان کے بعد وہ اس کے متعلق ایک خلجان آمیز شک میں مبتلا ہیں۔‘‘

        یہ نکتہ خاص طور پر بہت اہم اور لائق توجہ ہے کہ ’’وارثانِ کتاب‘‘ کے اَذہان وقلوب میں اُلجھن میں ڈالنے والے شکوک و شبہات کیوں ڈیرے جما لیتے ہیں؟ دراصل ہوتا یوں ہے کہ شروع شروع میں سب معاملات بالکل ٹھیک چلتے رہتے ہیں، مگر چوتھی پانچویں نسل تک آتے آتے معاملات اس وقت بگڑنے لگتے ہیں جب نوجوان اپنے علماء کو باہم دست و گریباں ہوتے دیکھتے ہیں اور ان کے دامن حیات کو متاعِ عمل سے خالی پاتے ہیں۔ ایسی صورت حال سے بیزار ہو کر علماء کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ’’کتاب‘‘ سے بھی بدظن ہونے لگتے ہیں۔ یہ نوجوان خود تو کتاب کے علوم و معارف تک رسائی حاصل کرنے کی زحمت نہیں اٹھاتے لیکن اس مفروضے کو اپنے دلوں میں ضرور بٹھا لیتے ہیں کہ جب کتاب کے ’’علماء‘‘ کے کردار و عمل میں روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی کوئی روشنی اس کتاب کے اندر سرے سے موجود ہی نہیں۔ 

UP
X
<>