April 26, 2024

قرآن کریم > الشورى >sorah 42 ayat 24

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَإِن يَشَأِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَى قَلْبِكَ وَيَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

بھلا کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ کلام خود گھڑ لیا ہے؟ حالانکہ اگر ا ﷲ چاہے تو تمہارے دل پر مہر لگادے، اور اﷲ تو باطل کو مٹاتا ہے، اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعے ثابت کرتا ہے۔ یقینا وہ سینوں میں چھپی ہوئی باتوں تک کو جانتا ہے

آیت ۲۴:  اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا: ’’کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اللہ کے اوپر جھوٹ گھڑ لیا ہے؟‘‘

        یعنی یہ کہ محمد نے قرآن خود بنا کر اللہ کی طرف منسوب کر دیا ہے۔

         فَاِنْ یَّشَاِ اللّٰہُ یَخْتِمْ عَلٰی قَلْبِکَ: ’’تو اگر اللہ چاہے تو آپ کے قلب پر مہر لگا دے۔‘‘

        یہ خطاب بظاہر محمد ٌرسول اللہ سے ہے لیکن اصل میں مخالفین کو سنانا مقصود ہے کہ یہ قرآن وحی کی صورت میں محمد کے قلب پر نازل ہو رہا ہے۔ یہ خالص ایک وہبی صلاحیت ہے اور آپ کو اس بارے میں ہر گز کوئی اختیار نہیں ہے۔ کجا یہ کہ آپ خود اس کو گھڑیں یا تصنیف کریں۔ چنانچہ اگر اللہ چاہے تو یہ صلاحیت آپ سے واپس لے کر آپ کے قلب پر مہر کر دے اور آپ پر وحی آنا بند ہو جائے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں یہی مضمون اس طرح آیا ہے (وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیْنَا وَکِیْلاً) ’’اور (اے نبی) اگر ہم چاہیں تو لے جائیں اس (قرآن) کو جو ہم نے وحی کیا ہے آپ کی طرف، پھر آپ نہ پائیں گے اپنے لیے اس پر ہمارے مقابلے میںکوئی مددگار۔‘‘

         وَیَمْحُ اللّٰہُ الْبَاطِلَ وَیُحِقُّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ: ’’اور اللہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کا حق ہونا ثابت کر دیتا ہے اپنے کلمات سے۔‘‘

        یہ اللہ کی سنت اور اس کا اٹل قانون ہے، لیکن اس کے ظہور میں اللہ کی مشیت کے مطابق وقت لگتا ہے۔ جیسے حضور کی دعوت کے حوالے سے اللہ کی اس سنت کا ظہور پہلی دفعہ غزوئہ بدر کے میدان میں اس وقت عمل میں آیا جبکہ دعوت کو شروع ہوئے چودہ برس گزر چکے تھے۔ چنانچہ غزوئہ بدر کے ذریعے حق و باطل کے مابین فرق کو واضح اور مبرہن کر کے نہ صرف یومِ بدرکو یوم الفرقان (الانفال: ۴۱) قرار دیا گیا بلکہ اس غزوہ کا بنیادی مقصد بھی احقاقِ حق اور ابطالِ باطل ہی بتایا گیا (لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ) (الانفال) ’’تا کہ سچا ثابت کر دے حق کو اور جھوٹا ثابت کر دے باطل کو، خواہ یہ مجرموں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘

         اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ: ’’یقینا وہ واقف ہے اس سے بھی جو کچھ سینوں کے اندر پوشیدہ ہے۔‘‘

UP
X
<>