April 26, 2024

قرآن کریم > الشورى >sorah 42 ayat 42

إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُوْلَئِكَ لَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ

اِلزام تو اُن پر ہے جو زمین میں ناحق ظلم کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کیلئے دردناک عذاب ہے

آیت ۴۲:  اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ: ’’اصل میں الزام تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں‘‘

         وَیَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ : ’’اور زمین کے اندر سرکشی کرتے ہیں بغیر کسی حق کے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘

        عدل و انصاف کی راہ میں اصل رکاوٹ تو وہ لوگ ہیں جو زمین میں سرکشی دکھاتے ہیں، جواللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے بجائے خود حاکم بن بیٹھتے ہیں اور عوام الناس کے حقوق پر شب خون مارتے ہیں۔

        اللہ تعالیٰ کے ہاں انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کی اہمیت کا اندازہ اُن تاکیدی احکام سے لگایا جاسکتا ہے جو پورے قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ سورۂ آل عمران کی آیت ۱۸ میں اللہ تعالیٰ کی شان قَآئِمًام بِالْقِسْطِ: کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ وہ عدل و انصاف قائم کرنے والا ہے۔ سورۃ النساء کی آیت ۱۳۵ میں فرمایا: (یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ) ’’اے اہل ِایمان کھڑے ہو جاؤ پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے گواہ بن کر‘‘۔ اور پھر سورۃ المائدۃکی آیت ۸ میں یہی الفاظ اس ترتیب میں دہرائے گئے ( یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالْقِسْطِ) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بن جاؤ‘‘۔ پھر زیرمطالعہ سورت کی آیت ۱۵ میں حضور سے فرمایا گیا کہ آپؐ انہیں بتا دیجیے (وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ) کہ مجھے تمہارے درمیان عدل قائم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ 

UP
X
<>