April 26, 2024

قرآن کریم > الجاثية >sorah 45 ayat 23

أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ أَفَلا تَذَكَّرُونَ

پھر کیا تم نے اُسے بھی دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنالیا ہے، اور علم کے باوجود اﷲ نے اُسے گمراہی میں ڈال دیا، اور اُس کے کان اور آنکھ پر مہر لگادی، اور اُس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا؟ اب اﷲ کے بعد کون ہے جو اُسے راستے پر لائے؟ کیا پھر بھی تم لوگ سبق نہیں لیتے؟

آیت ۲۳  اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰہُ: ’’کیا آپ نے دیکھا اُس شخص کو جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے؟‘‘

          اس سے قبل یہ مضمون سورۃالفرقان کی آیت: 53 میں بھی آ چکا ہے۔  یہاں اس کا اعادہ دراصل زیر مطالعہ آٹھ سورتوں (سورۃ الزمر تا سورۃ الاحقاف) کے مرکزی مضمون کے سیاق و سباق میں ہوا ہے۔ چنانچہ آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مضمون کے ذیلی عنوانات کی ترتیب کو ایک دفعہ پھر سے ذہن میں تازہ کر لیا جائے۔ ان آٹھ سورتوں میں سے پہلی چار سورتوں (الزمر تا الشوریٰ) میں ’’توحید ِعمل‘‘ کا مضمون ایک خاص ترتیب اور تدیج کے ساتھ بیان ہوا ہے۔سورۃ الزمر میں تکرار کے ساتھ تاکید کی گئی ہے کہ اللہ کی بندگی کرواس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے: قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ: ’’(اے نبی!) آپ کہہ دیجیے :مجھے حکم ہوا ہے کہ میں بندگی کروں اللہ کی اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے‘‘۔ اللہ کی اطاعت سے منہ موڑ کر کسی اور کی اطاعت کرنا شرک ہے اور مخلوق میں سے کسی کی ایسی اطاعت کرنا بھی شرک ہے جس سے خالق کی معصیت کا ارتکاب ہوتا ہو۔ اس کے بعد سورۃ المؤمن میں توحید عملی کے داخلی پہلو (دعا) کو اُجاگر کیا گیا ہے اور بار بار حکم دیا گیا ہے:  فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ: کہ اللہ سے دعا کرو اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ اس طرح ان دونوں سورتوں میں توحید عملی کا مضمون اپنے خارجی اور داخلی دونوں پہلوؤں سے ایک فرد کی حد تک مکمل ہو گیا ہے۔

           اس کے بعد اگلی دو سورتوں (سورۂ حٰمٓ السجدۃ اور سورۃ الشوریٰ )میں توحید عملی کو فرد سے اجتماعیت کی طرف بڑھایا گیا ہے۔  چنانچہ سورۂ حٰمٓ  السجدۃ میں توحید کی دعوت کو لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے اور اس دعوت کی فضیلت کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے:  وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ: ’’اور اس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوگی جو بلائے اللہ کی طرف اور وہ نیک عمل کرے اور کہے کہ میں بھی مسلمانوں میں سے ہوں!‘‘ اس دعوت کا ذریعہ (medium) چونکہ قرآن ہے اس لیے اسی نسبت سے سورئہ  حٰمٓ السجدۃ میں قرآن کی عظمت کا ذکر تکرار کے ساتھ (چھ مرتبہ) آیا ہے۔ اس کے بعد سورۃ الشوریٰ کا مرکزی مضمون اقامت دین ہے۔ تدریج کے حوالے سے اس کی وضاحت یوں ہو گی کہ جو لوگ توحید کی دعوت پر لبیک کہیں انہیں منظم کر کے ایک قوت میں تبدیل کیا جائے۔ پھر یہ سب لوگ مل کر باطل کے تسلط کو ختم کر نے اور معاشرے میں اللہ کے دین کو غالب کر نے کے لیے جدوجہد کریں۔ اس طرح ان چار سورتوں میں ‘‘ توحید عملی‘‘  کے مضمون کو فرد سے لے کر ایک ترتیب اور تدریج کے ساتھ اجتماعی نظام کی سطح تک مکمل کر دیا گیاہے۔

          اس کے بعد سورۃ الزخرف اور سورۃ الجاثیہ میں اس مضمون (توحید فی الاطاعت) کے تقابل کے طور پر شرک فی الاطاعت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سورۃ الزخرف میں اجتماعیت کی بلند ترین سطح یعنی حاکمیت کی سطح کے شرک کا حوالہ ہے جبکہ سورۃ الجاثیہ میں (خصوصی طور پر آیت زیر مطالعہ میں) انفرادی سطح کے شرک کا ذکرہے۔ جہاں تک اجتماعیت کی سطح پر شرک کا تعلق ہے اس کو یوں سمجھئے کہ ‘‘ انسانی حاکمیت‘‘  کا تصور شرک کی بد ترین شکل ہے‘ کیونکہ حاکم مطلق تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ سورۂ یوسف میں ہم پڑھ چکے ہیں:  اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ: (آیت:50) کہ اختیار مطلق تو صرف اللہ ہی کاہے۔اس حوالے سے سورۂ بنی اسرائیل کی آخری آیت کا یہ اعلان :  وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ: ’’اور نہیں ہے اس کا کوئی شریک بادشاہی میں‘‘ اور سورۃ الکہف کی آیت ۲۶ کے یہ الفاظ  وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا: ’’اور وہ شریک نہیں کرتا اپنے حکم میں کسی کو بھی‘‘ اپنے معانی و مفہوم میں بہت واضح ہیں۔ اب ایسے واضح احکام کے بعد اگر کوئی انسان ’’حاکمیت مطلق‘‘  کا دعویٰ کرے تو یہ گویا خدائی کا دعویٰ ہے اور یوں یہ شرک کی بد ترین شکل ہے۔ اسی شرک کا علم بردار نمرود تھا اور اسی جرم کا مرتکب فرعون بھی ہوا تھا۔ سورۃ الزخرف میں فرعون کے نعرۂ شرک کا ذکر یوں آیا ہے:  وَنَادٰی فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِہٖ قَالَ یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ: ’’اور فرعون نے اپنی قوم میں ڈھنڈورا پٹوا دیا‘ اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے اور یہ تمام نہریں میرے حکم کے تحت نہیں بہتی ہیں؟ تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟‘‘

          شرک فی الاطاعت کا دوسرا پہلو انفرادی ہے‘ جس کا ذکر آیت زیر مطالعہ میں آیا ہے۔ اس آیت میں ایک ایسے شخص کی مثال بیان ہوئی ہے جس نے اپنی زندگی میں اللہ کے حکم کے مقابلے میں اپنے نفس کی خواہش پر چلنے کا طرزِ عمل اپنا رکھا ہے اور وہ اپنے نفس کے تقاضوں اور اس کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے حلال و حرام کی تمیز روا نہیں رکھتا۔ ایسے شخص نے اپنے عمل سے گویا ثابت کر دیا ہے کہ اس کا معبود اللہ نہیں‘ بلکہ اس کا نفس ہے۔ اور وہ حقیقت میں اللہ کا نہیں اپنے نفس کا ’’بندہ‘‘  ہے۔ حضور نے ایسے ہی شخص کو درہم و دینار کا بندہ قرار دیا ہے۔ آپ کا فرمان ہے: ((تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْھَمِ)) ’’ہلاک ہو جائے درہم و دینار کا بندہ‘‘۔ یہ دراصل وہ شخص ہے جو دولت کی محبت میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور حلال و حرام کی تمیز کو بالکل پس پشت ڈال چکا ہے۔ اب اس کے والدین نے اس کا نام ’’عبد الرحمن‘‘ ہی کیوں نہ رکھا ہو‘ لیکن اس کے عمل سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اصل میں وہ ’’عبد الدینار‘‘ ہے۔

          بہر حال سورۃ الزخرف میں شرک فی الاطاعت کا ذکر معاشرے کی بلند ترین سطح یعنی ریاست اور حاکمیت کی سطح پر ہوا ہے‘ جبکہ زیر مطالعہ سورت کی اس آیت میں اس کی دوسری انتہا یعنی انفرادی سطح کے شرک کا بیان ہے۔ شرک کی باقی تمام صورتیں ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہیں۔ آیت میں استفسار کے اسلوب سے زورِ کلام خاص طور پر زیادہ ہو گیا ہے کہ کیا آپ نے کبھی ایسے شخص کی عبرتناک حالت پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش ِنفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے؟

           وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ: ’’اوراللہ نے اسے گمراہ کر رکھا ہے اس کے علم کے باوجود‘‘

          ہو سکتا ہے وہ کوئی بہت بڑا عالم ہویا اعلیٰ پائے کا محقق ہو یا کوئی نامور سائنسدان ہو‘ مگر جس انسان نے اپنے نفس کا بندہ بن کر رہنا قبول کر لیا ہو اس کی علمی اہلیت‘ تحقیقی استعداد اور سائنٹیفک اپروچ اسے نہ تو اللہ کی اطاعت کی راہ دکھا سکتی ہے ‘ اورنہ ہی اس کے دل کو ایمان اور اللہ کی معرفت کے نور سے منور کر سکتی ہے۔ایسے بدقسمت لوگوں پر ہدایت کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں:  خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ وَعَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ: (البقرۃ :۷) ۔ سورۃ البقرۃ کی اس آیت کے الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ دیکھئے یہاں بھی آ گئے ہیں:

           وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً: ’’اور اللہ نے اُس کی سماعت اور اُس کے دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔‘‘

          اس مہر اور اس پردے کی کیفیت کا عملی مشاہدہ کرنا ہو تو آج کے سائنسدانوں کو دیکھ لیجیے۔ انہوں نے سات سمندروں کے پانیوں کو کھنگال مارا ہے‘ روئے ارضی کے ذرّے ذرّے کی چھان پھٹک وہ کر چکے ہیں۔ خلا کی وسعتوں کے اندر دور دور تک وہ جھانک آئے ہیں۔ غرض سائنسی کرشموں کے سبب انہوں نے کائنات کے بڑے بڑے رازوں کو طشت ازبام کر دیا ہے‘ لیکن اس پوری کائنات میں اگر انہیں نظر نہیں آیا تو ایک اللہ نظر نہیں آیا!  مذکورہ ’’پردہ‘‘  ان کی آنکھوں پر اس قدر دبیز ہو چکا ہے کہ اس پوری کائنات میں کائنات کے خالق کا انہیں کہیں سراغ نہیں ملا۔

           فَمَنْ یَّہْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اللّٰہِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ: ’’تو اللہ کے (اس فیصلے کے) بعد اب کون اسے ہدایت دے سکتا ہے‘ تو کیا تم لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے؟‘‘ 

UP
X
<>