May 2, 2024

قرآن کریم > محمّـد >sorah 47 ayat 11

ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لا مَوْلَى لَهُمْ 

یہ اس لئے کہ اﷲ اُن لوگوں کا رکھوالا ہے جو ایمان لائیں ، اور کافروں کا کوئی رکھوالا نہیں ہے

آیت ۱۱ ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰی لَہُمْ: ’’یہ اس لیے کہ اللہ مولیٰ (پشت پناہ ) ہے اہل ایمان کا اور یہ کہ کافروں کا کوئی مولیٰ ہے ہی نہیں۔‘‘

          اسی آیت کے الفاظ سے رسول اللہ  نے وہ نعرہ اخذ فرمایا تھا جس سے میدانِ اُحد میں کفار کے نعرے کا جواب دیا گیا تھا۔ میدانِ اُحد میں وقتی طور پر مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس دوران رسول اللہ  کچھ صحابہؓ کے ساتھ جبل اُحد پر تشریف لے گئے تھے۔اُس وقت ابو سفیان اور خالد بن ولید (بعد میں دونوں حضرات ایمان لا کر صحابہؓ میں شامل ہوئے) سمیت بہت سے سردارانِ قریش پہاڑ کے دامن میں موجود تھے۔ ان میں سے ابوسفیان نے حضور اور مسلمانوں کو مخاطب کر کے ُپر جوش انداز میں نعرہ بلند کیا تھا:اُعْلُ ھُبَل، اُعْلُ ھُبَل!  (ہبل کی جے!) یعنی آج ہمارے بت ُہبل کا بول بالا ہوا  ---- رسول اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اس نعرے کا جواب ان الفاظ سے دیں : اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَل! یعنی اللہ ہی سب سے بلند مرتبہ اوربزرگ و برتر ہے‘ اسی کا بول بالا ہے! اس کے جواب میں ابوسفیان نے ایک اور نعرہ لگایا :  لَنَا الْعُزّٰی وَلا عُزّٰی لَکُمْ کہ ہمارے لیے توعزیٰ ّجیسی دیوی مدد کے لیے موجود ہے لیکن تمہاری تو کوئی عزیٰ ہی نہیں ہے۔ حضور نے مسلمانوں کو اس کا جواب اس نعرے سے دینے کا حکم دیا:  اَللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ کہ ہمارا مولیٰ (مدد گار ‘ پشت پناہ اور کارساز) تو اللہ ہے ‘جبکہ تمہارا تو کوئی مولیٰ ہے ہی نہیں۔ 

UP
X
<>