May 7, 2024

قرآن کریم > محمّـد >sorah 47 ayat 14

أَفَمَن كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ كَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءهُمْ

اب بتاؤ کہ جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشن راستے پر ہوں ، کیا وہ اُن جیسے ہو سکتے ہیں جن کی بدکاری ہی اُن کیلئے خوشنما بنا دی گئی ہو، اور وہ اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چلتے ہوں؟

آیت ۱۴ اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ: ’’تو بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہے۔‘‘

          یعنی اس کی سرشت اور فطرت بھی نیک ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت اس کو دی ہے وہ اس ہدایت پر بھی قائم ہے۔

          کَمَنْ زُیِّنَ لَہٗ سُوْٓء عَمَلِہٖ وَاتَّبَعُوْا اَہْوَآءہُمْ: ’’ وہ اُس شخص جیسا ہو جائے گا جس کے لیے اس کے ُبرے اعمال مزین کر دیے گئے ہیں‘ اور انہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی ہے۔‘‘

          ایسے لوگوں کو وہی کچھ نظر آتا ہے جو ان کی خواہشات کا آئینہ انہیں دکھاتا ہے اور ظاہر ہے یہ آئینہ تو کالے کرتوتوں کو بھی خوشنما بنا کر ہی دکھاتا ہے۔ اسی وجہ سے فرعون نے اہل مصر کی تہذیب و روایات کو مثالی: (بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی) (طٰہٰ) قرار دیا تھا۔

          آیت زیرمطالعہ میں جن دو کرداروں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں باہم کوئی مقابلہ یا موازنہ ہے ہی نہیں۔ ایک طرف اللہ کے وہ بندے ہیں جو اپنے رب کی طرف سے بیّنہ پر ہیں۔ یقینا وہ کامیاب ہونے والے لوگ ہیں۔ جبکہ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اپنے نفس کی غلامی اور اپنی خواہشات کی پیروی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ بہرحال ناکام و نا مراد ہیں۔

UP
X
<>