May 7, 2024

قرآن کریم > محمّـد >sorah 47 ayat 20

وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلا نُزِّلَتْ سُورَةٌ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَأَوْلَى لَهُمْ

اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ : ’’ کیا اچھا ہو کہ کوئی (نئی) سورت نازل ہوجائے؟‘‘ پھر جب کوئی جچی تلی سورت نازل ہو جائے، اور اُس میں لڑائی کا ذکر ہو تو جن لوگوں کے دلوں میں روگ ہے، تم اُنہیں دیکھو گے کہ وہ تمہاری طرف اس طرح نظریں اُٹھائے ہوئے ہیں جیسے کسی پر موت کی غشی طاری ہو۔ بڑی خرابی ہے ایسے لوگوں کی

آیت ۲۰ وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَۃٌ : ’’اور یہ لوگ جو ایمان کے دعویدار ہیں‘کہتے ہیں کہ (قتال کے بارے میں) کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوئی؟‘‘

          زیر مطالعہ مضمون کے حوالے سے اس سورت کی یہ آیت خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ہجرت کے فوراً بعد رسول اللہ نے مدینہ سے باہر قریش مکہ کے خلاف مہمات بھیجنا شروع کر دیں۔ غزوۂ بدر سے پہلے ایسی آٹھ مہمات کا بھیجا جانا تاریخ سے ثابت ہے۔ ان میں سے چار مہمات کا شمار تو غزوات میں ہوتا ہے کہ ان میں حضور خود بھی تشریف لے گئے تھے۔ ان مہمات کے ذریعے سے آپؐ نے خصوصی طورپر مندرجہ ذیل دو مقاصد حاصل کیے:

الف: مکہ کی تجارتی شاہراہ سے ملحقہ علاقوں میں مسلح دستوں کی نقل و حرکت سے قریش مکہ کو آپؐ نے ایک مؤثر پیغام پہنچا دیا کہ تمہاری شہ رگ (life line) اب ہر طرح سے ہمارے قبضہ میں ہے اور ہم جب چاہیں تمہاری مکمل معاشی ناکہ بندی کر سکتے ہیں۔

ب: جن علاقوں میں آپؐ نے مہمات بھیجیںیا آپؐ خود تشریف لے گئے وہاں کے اکثر قبائل کو آپؐ نے اپنا حلیف بنا لیا‘اور جو قبائل آپؐ کے حلیف نہ بھی بنے انہوں نے قریش مکہ اور مسلمانوں کے تنازعہ میں غیر جانبدار رہنے کے معاہدے کر لیے۔ یوں اس پورے علاقے سے قریش مکہ کا اثر و رسوخ روز بروز کم ہونا شروع ہو گیااور انہیں جزیرہ نمائے عرب میں صدیوں سے قائم اپنی سیاسی اجارہ داری کی بساط لپٹتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔

          اس حوالے سے یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ حضور کی طرف سے مذکورہ مہمات کی منصوبہ بندی ابتدائی اقدام (initiative) کی نئی حکمت عملی کے تحت کی جا رہی تھی۔قریش مکہ کی طرف سے آپؐ کے قیامِ مکہ کے دور کی زیادتیاں اپنی جگہ ‘لیکن ہجرت کے بعد سے اب تک انہوں نے کوئی بھی جارحانہ اقدام نہیں کیاتھا۔ اُس وقت تک جارحانہ اقدام سے متعلق قرآن میں بھی کوئی واضح ہدایت نہیں آئی تھی۔سورۃ الحج کی آیت ۳۹ میں جو حکم تھا وہ اذن اور اجازت کے درجے میں تھا‘ اس حکم میں بھی جارحانہ اقدام کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ بلکہ ایک رائے کے مطابق تو اُس وقت تک یہ حکم نازل بھی نہیں ہوا تھا ‘کیونکہ سورۃ الحج کو بعض لوگ مدنی سورت مانتے ہیں‘ اوراگر یہ رائے درست ہو تو پھر یہ بھی امکان ہے کہ سورۃ الحج واقعتااس دور کے بعد نازل ہوئی ہو۔ دوسری طرف سورۃ البقرۃاس وقت تک مکمل نازل ہو چکی تھی اور ا س میں قتال کے بارے میں احکام بھی موجود ہیں‘ مگر وہ احکام  زیادہ سے زیادہ اس نوعیت کے ہیں: وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ  یُقَاتِلُوْنَکُمْ: (البقرۃ: ۱۹۰) کہ جو لوگ آپ سے لڑتے ہیں آپ لوگ ان کے خلاف لڑو!

          اس پس منظر میں منافقین کی طرف سے حضور کے مذکورہ اقدامات کے خلاف ’’لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَۃٌ‘‘ کے اعتراض کا مفہوم بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ جب قریش کی طرف سے کوئی حریفانہ اقدام نہیں ہو رہا تو ہماری طرف سے ان کی تجارتی شاہراہ پر چھاپے مار کر اور ان کے قافلوں کا تعاقب کر کے خواہ مخواہ جنگی ماحول پیدا کرنے کا کوئی جواز نہیں ‘اور اگر یہ اقدامات ایسے ہی ضروری تھے تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کوئی واضح حکم کیوں نازل نہیں کیا؟ اور اگر قرآن میں ایسا کوئی حکم نازل نہیں ہوا تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ حضور خود اپنی مرضی سے یہ مہم جوئی کر رہے ہیں۔

          فَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ مُّحْکَمَۃٌ وَّذُکِرَ فِیْہَا الْقِتَالُلا: ’’پھر جب ایک محکم سورت نازل کر دی گئی اور اس میں قتال کا حکم آ گیا

          اس سے مراد زیر مطالعہ سورت یعنی سورۂ محمد  ہے اور اس سورت کا دوسرا نام ’’سورۃ القتال‘‘ اسی آیت سے ماخوذ ہے۔

          رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ یَّـنْظُرُوْنَ اِلَـیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ: ’’تو اب آپ دیکھیں گے ان لوگوں کو جن کے دلوں میں روگ ہے کہ یہ لوگ آپؐ کی طر ف ایسے دیکھیں گے جیسے وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہو رہی ہوتی ہے۔‘‘

          فَاَوْلٰی لَہُمْ: ’’تو بربادی ہے ان کے لیے

          دراصل یہ لوگ قتال سے جی چراتے ہیں۔ قبل ازیں اپنے بچائو کے لیے ان کی دلیل یہ تھی کہ اس بارے میں اللہ کا کوئی واضح حکم نازل نہیں ہوا۔ اب جبکہ اللہ نے قتال کے بارے میں واضح حکم نازل کر دیا ہے تو ان کی یہ دلیل ختم ہو گئی ہے۔

UP
X
<>