May 2, 2024

قرآن کریم > محمّـد >sorah 47 ayat 22

فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ

پھر اگر تم نے (جہاد سے) منہ موڑا تو تم سے کیا توقع رکھی جائے؟ یہی کہ تم زمین میں فساد مچاؤ، اور اپنے خونی رشتے کاٹ ڈالو !

آیت ۲۲ فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّـیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ: ’’پس تم سے اس کے سوا کچھ متوقع نہیں ہے کہ اگر تم لوگوں کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد مچائو گے اور اپنے رحمی رشتے کاٹو گے۔

          عام طور پر اس آیت کے دو ترجمے کیے جاتے ہیں۔ دوسرے ترجمے کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ اگر تم لوگ قتال سے منہ موڑو گے تو تم سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد مچائو گے اور خونی رشتوں کے تقدس کو پامال کرو گے۔ اوپر آیت کے تحت جو ترجمہ اختیار کیا گیا ہے وہ شیح الہندؒ کے ترجمے کے مطابق ہے اورمجھے اسی سے اتفاق ہے۔ شیخ الہندؒ کے ترجمے کے اصل الفاظ یہ ہیں: ’’پھر تم سے یہ بھی توقع ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو خرابی ڈالوملک میں اور قطع کرو اپنی قرابتیں‘‘۔یعنی اس مرحلے پر جبکہ تم لوگوںنے تربیت کے ضروری مراحل ابھی طے نہیںکیے ہیں‘ ابھی تم آزمائشوں کی بھٹیوں میںسے گزر کر کندن نہیں بنے ہو اور تزکیہ باطن اور تقویٰ کے مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچے ہو‘ ایسی حالت میں اگر تم لوگوں کو جزیرہ نمائے عرب میں اقتدار مل جائے تو اس کانتیجہ ’’فساد فی الارض‘‘ کے سوا اور بھلا کیا نکلے گا!

          اس آیت کے مخاطب دراصل مدینہ اور اس کے اطراف و جوانب کے وہ لوگ ہیں جو ہجرت کے فوراً بعد ابھی تازہ تازہ ایمان لائے تھے ‘انہوںنے ابتدائی دور کے اہل ایمان کی طرح اس راستے میں کڑی آزمائشوں کا سامنا نہیں کیاتھا اور اس لحاظ سے ان کے کردار و عمل میں ابھی مطلوبہ پختگی اور استقامت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس کا عملی ثبوت غزوۂ اُحد کے موقع پر اس وقت سامنے آ گیا جب مسلمانوں کی صفوں سے ایک تہائی لوگ اچانک بہانہ بنا کر طے شدہ لائحہ عمل سے لاتعلق ہو کر اپنے گھروں میں جا بیٹھے۔ گویا اس وقت اہل ایمان کے اندر اتنی بڑی تعداد میں ضعیف الاعتقاد مسلمان اور منافقین موجود تھے۔

          اس اہم نکتے پر آج ان تمام دینی جماعتوں کو بھی خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرور ت ہے جو اپنی دانست میں غلبہ ٔدین کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اگر یہ جماعتیں اپنے کارکنوں کی مناسب تربیت پر توجہ نہیں دیں گی اور ان کے اندر اخلاص اورللہیت کے پاکیزہ جذبات پروان چڑھانے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کریں گی تو انہیں اقتدار ملنے کے نتیجے میں اصلاح کی بجائے الٹا فساد پیدا ہو گا اور ایسی صورتِ حال دین اور غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے بدنامی کا باعث بنے گی۔ کیونکہ فاسق و فاجر قسم کے لوگوں اور لا دینی قوتوں کے پیدا کردہ فساد کو تو دنیا کسی اور زاویے سے دیکھتی ہے ‘لیکن اگر کسی دینی جماعت کے اقتدار کی چھتری کے نیچے ’’فساد فی الارض ‘‘کی کیفیت پیدا ہو گی تو ا س سے جماعت کی شہرت کے ساتھ دین بھی بدنام ہو گا۔

UP
X
<>